قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں بے حسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اولین شعر بین الاقوامی ماحول پر ہے اور ثانی شعر کو مقامی سمجھ لیں۔ مگر ضروری نہیں کہ بات ہم اسی حوالے سے کریں مگر کچھ کچھ ایسا احساس ہمیں گھیرے رکھتا ہے کہ جیسا مریخ کی ایک کہانی میں تھا۔ انگریزی کی اس کہانی میں ایک انگریز فیملی اس وقت مریخ پر جا اترتی ہے جب امریکہ بھی ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں ہے مگر میرا اشارہ صرف اس اہم بات کی طرف ہے کہ مریخ کی پراسرار فضائوں میں جب میاں بیوی رات کو سوتے ہیں تو انہیں احساس رہتا ہے کہ کوئی تیسرا شخص بھی موجود ہے یہ ان کا وہم بھی ہوسکتا ہے۔ یا پھر وہ مومن والی بات کہ ’’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی تیسرا نہیں ہوتا۔ جس پر مرزا منور نے ’’جب کوئی تیسرا نہیں ہوتا‘‘ کی گرہ بھی لگائی تھی۔ بہرحال مریخ کی فضائوں میں کوئی خلائی مخلوق ضرور تھی جو میاں بیوی کو ڈرائے رکھتی تھی۔ صرف میاں کو نہیں بیوی کو بھی۔ مجھے منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ شاید کچھ تصرف ہو جائے: پھلی ہوئی تھی چار سو کوئی مہک وہاں میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضروری تھا میں اس پر ہرگز بات نہیں کروں گا کہ جو میاں صاحب اور ان کے حواری کہہ رہے ہیں کہ ان کی جنگ عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے لانے والوں کے ساتھ ہے۔ وہی جو حفیظ جالندھری نے کہا تھا کہ میں آیا نہیں لایا گیا ہوں۔ خود آنے کا دعویٰ تو شاید کوئی بھی نہ کر سکے کہ یہ غیر فطری سی بات لگتی ہے۔ وہ تو ذوق بھی کہہ گئے ہیں کہ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ یہ دعویٰ تو شاید خود مدعی یعنی نوازشریف بھی نہیں کرسکتے کہ ہم نے بھی غلام اسحاق کی تقریر سن رکھی ہے کہ جنہوں نے قوم کو تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کو کہا تھا۔ دیکھئے میں پھر اس بحث میں پڑ رہا ہوں۔ میرا سیاست سے کیا کام۔ بقول جگر: جن کا یہ کام ہے یہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے لیکن ایک بات ہے کہ سیاستدانوں کی باتیں سن کر لطف اندوز ہونے کا ٹھرک ہمیں بھی لگ گیا ہے کہ کیسے وہ بات کہہ کر مکرتے ہیں کہ ’’کہہ مکرنی‘‘ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ وہ دائیںپائوں اور بائیں پائوں یعنی کسی بھی پائوں کی ایڑھی پر گھوم سکتے ہیں۔ اب تو یوٹرن بھی پرانی اصطلاح ہو چکی۔ اب تو وہ ایسے بات کرتے ہیں کہ اس کے اندر ہی کئی یوٹرن موجود ہوتے ہیں۔ ایسے کہ سننے والوں کے سر گھوم جاتے ہیں۔ ابھی اے پی سی پر میں عمران خان کی گفتگو سن رہا تھا کہ یہ اے پی سی والے جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں ان کی اس رائے پر جان و دل سے فریفتہ ہوگیا کہ اسے کہتے ہیں خوداعتمادی اور عزم وہمت بلکہ استقلال بھی۔ اب کون نہیں جانتا کہ خان صاحب جیسا سچا‘ کھرا اور بے لچک بندہ بھی کوئی روئے زمین پر پیدا ہوا ہوگا۔ اگرچہ جھوٹ بولنا ایک فن اور آرٹ بھی ہے اور بعض جگہ دانشوری اور حکمت بھی۔ خاص طور پر محبوب کے منہ سے جھوٹ بولنے کو تو شاعروں نے مزے لے لے کر باندھا ہے: جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا تونے اس میں بھی ضابطہ رکھا شہزاد احمد کی محبت یاد آئی جب انہوں نے مسکراتے ہوئے سنایا تھا: یہ سمجھ کے جانا ہے سچ تمہاری باتوں کو اتنے خوبصورت ہونٹ جھوٹ کیسے بولیں گے بہرحال جھوٹ بولتے ہوئے کچھ لوگ بہت ہی پیارے لگتے ہیں۔ جھوٹیا وے اک جھوٹ ہور بول جا۔ کہہ دینا چاہیے‘ میں ایسے بات سنتا ہوں۔ کہ تو جھوٹا نہیں لگتا۔ اب میں جھوٹ پر پورا کالم نہیں باندھنا ۔ ویسے تو نوازشریف نے بھی آدھا سچ بولا ہے۔ پورا سچ تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں۔ اب چاہے مجھے برا بھلا کہیں لیکن اپنی بساط کے مطابق جو میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ ان میں سے کچھ سچ مچ مولانا فضل الرحمن محسوس ہوئے۔ وہ درست کہہ رہے تھے کہ انہوں نے پھر پھسل جانا ہے یعنی کمپرومائز کرلینا ہے بلکہ کبھی کبھی تو لگتا تھا یہ سارا ڈرامہ حکومت اور اپوزیشن کی ملی بھگت ہے۔ آپ میری بات کو فضول بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انگریزی ڈراموں میں فول کا کردار بھی ہوتا ہے جو مذاق میں کھری باتیں بھی کہہ جاتا ہے: وہ بات پورے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بڑی ناگوار گزری ہے آپ کو لندن کی اے پی سی اگر یاد ہے تو اس میں مولانا نے افتخار چوہدری کے حوالے سے جب یہ کہا تھا کہ ان پر اتنا بھی اعتماد نہ کریں کہ پچھانا پڑے تو سب کو یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ کہتے تھے کہ مولانا نے بونگی ماری ہے۔ پھر وقت نے کیا ثابت کیا۔ بہرحال واقعتاً کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عوام کی توجہ ذرا ہٹ گئی ہے۔ چلیے ایک دفعہ پھر متحدہ اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمہوریت بحال کر کے رہیں گے اور اس مقصد کے لیے وہ وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا مطالبے کے اندر وزیراعظم کا سلیکٹڈ ہوناطے ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی آمر آتا ہے تو وہ بھی اصلی جمہوریت بحال کرنے ہی آتا ہے جیسے پرویز مشرف نے ق لیگ کی صورت اصلی جمہوریت بحال کی۔ ایسی ہی جمہوریت ایک زمانے میں ضیاء الحق نے نوازشریف کی شکل میں بحال کی مگر زیادہ مینڈیٹ ہونے کے باعث اس جمہوریت نے آمریت پر کاٹھی ڈالنے کی کوشش کی۔ پھر گھوڑے پر سواری اتنی آسان بھی نہیں۔ میں کدھر نکل گیا۔ بات ہورہی تھی وزیراعظم عمران خان کی۔ آج میرے بہت محترم کالم نگار نے زبردست بات لکھی کہ کسی نے قہقہ مارتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کالم لکھنے سے کوئی وزیراعظم بن سکتا ہے تو عمران خان ضرور بن جائیں گے۔ پھر ملک نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ جب کوئی کسی کو وزیراعظم بنانے کا سوچ لیتے ہیں تو پھر کسی کالم کی بھی ضرورت کہاں رہتی ہے۔ معین قریشی آ جاتے ہیں۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہیں اور یہ کھیل ہماری قسمت ہے۔ خالد احمد نے غالب کے دو مختلف مصرعے اکٹھے کر کے ایک نیا شعر بنا دیا تھا: نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں