پچھلے دنوں حکومت نے شرح سود بڑھا دی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ماہر اقتصادیات اور سٹیٹ بنک کے سابق عہدیدار ظفر شیخ کا کہنا ہے کہ اس سے ملکی معیشت پر سکتہ طاری ہو گا اور یہ فیصلہ معیشت کے لیے زہر قاتل ہو گا۔ حضور زہر قاتل ہی تو ہمیں درکار ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ زہر بھی کرتا ہے کارتریاقی، تو ہم اسی تریاق کی جستجو میں ہیں۔ برسبیل تذکرہ‘ تبدیلی میں سود ختم ہوتا ہے نہ گھٹتا ہے، بلکہ بڑھتا ہے۔ ایک فائدہ تو اس کا یہ ہو گا بلکہ فائدے کی شروعات بھی ہو گئی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار بھاگ جائیں گے یعنی ایک بلا سے جان چھوٹے تھی اور شروعات یوں ہوئی ہے کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق تیل کی کھپت میں 35فیصد کمی ہو گئی ہے یعنی شرح نمو پر غنودگی طاری ہونے لگی ہے۔ ع یعنی رات بہت تھے جاگے‘ صبح ہو ئی آرام کیا۔ شرح نمو نے سابق پانچ سالہ کرپٹ دور میں خوب رت جگا کر لیا۔ صنعتی عمل ایک تہائی کم ہو گیا‘ باقی دو تہائی رہ گیا‘ وہ بھی انجام کو پہنچے تو من کی مراد پوری ہو۔ کارتریاقی کا دوسرا نام’’تبدیلی ڈاکٹرائن‘‘ ہے جس کے تحت پہلے ہی شرح نمو کم کرنے اور ترقیاتی بجٹ روکنے کے فیصلے کئے جا چکے ہیں۔ تبدیلی ڈاکٹرائن کا ایک اصول زریں یہ تھا کہ سڑکیں پل اور ریلیں تعمیر کرنے سے ترقی نہیں آتی۔ کئی کٹوتیوں میں تعلیم کا شعبہ بھی آ گیا ہے جس کا بجٹ لگ بھگ چالیس فیصد کم کر دیا گیا ہے۔ یعنی معلوم ہوا کہ ترقی تعلیم سے بھی نہیں آتی۔ ترقی کرنا ہے تو چندہ مانگنا ہو گا۔ تبدیلی ڈاکٹرائن کا اصل زور اس بات پر ہے کہ ملکی خزانہ پیداواری عمل سے بھرنے کا شوق فضول ترک کر دیا جائے اور لوگوں کی جیب سے پیسے نکلوائے جائیں۔ لوگ سے مراد یہاں’’عام آدمی‘‘ ہے چنانچہ لامتناہی مدوں میں ٹیکس اور چندے عائد کر دیے گئے ہیں۔ اس پر اپوزیشن رہنما خواجہ آصف نے حکومت کو ’’جیرا بلیڈ‘‘ قرار دیا ہے جو زیادتی ہے۔ جیرا بلیڈ لاعلمی میں جیب کاٹتا ہے یعنی جیب کاٹنے سے پہلے بتاتا نہیں ہے۔ تبدیلی ڈاکٹرائن میں ایسا کچھ نہیں ہے‘ سب کچھ بتا کر جیب ٹٹولی جاتی ہے۔ اس جیب ٹٹولی کے نتیجے میں گزشتہ روز یہ خبر شائع ہوئی کہ مہنگائی میں 25فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ یعنی جو پہلے پچاس ہزار میں گھر چلاتا تھا‘ اب ساڑھے باسٹھ ہزار روپے چاہئیں لیکن ٹھہریے۔ اخبار نے رعایت سے کام لیا ہے۔ مہنگائی اس سے زیادہ ہوئی ہے جتنی اس نے بتائی ہے اور یہ خبر جب چھپی‘ تب آٹا مہنگا نہیں ہوا تھا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ آٹا فی من 80روپے مہنگا ہو گیا۔80روپے سے یاد آیا‘ ہفتہ عشرہ پہلے سیمنٹ کی بوری 80روپے مہنگی ہوئی تھی لیکن تبدیلی کا سفر رکا نہیں‘ تھما نہیں‘ اس ہفتے یہ سوا سو روپے مہنگی ہو گئی ہے۔ بات وہی ہے‘ تعمیراتی کاموں سے ترقی کا کیا لینا دینا۔ وفاقی وزیر نے بتایا‘ بجلی مہنگی کرنے کا فیصلہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے بعد ہو گا۔ گویا ان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بجلی مہنگی نہیں ہو رہی حالانکہ وہ تو مہنگی ہو چکی‘ پچھلے دنوں مہینے کا جو بل آیا‘ وہ کیا تھا۔ یا شاید وہ بتا رہے ہیں کہ مزید مہنگی ہو گی آڈیٹر صاحب کی رپورٹ کے بعد۔ ٭٭٭٭٭ ازبکستان کے سفیر نے کہا ہے کہ ان کا ملک تاشقند سے گوادر تک بلٹ ٹرین چلانا چاہتا ہے۔ اللہ خوش رکھے‘ کچھ ہو نہ ہو‘ بات تو دل خوش کرنے والی کی۔یہاں تو سی پیک کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی ایسی تبدیلیوں کی خبر ہے کہ قمیص کی جگہ بنیان ہی رہ جائے تب بھی غنیمت سمجھئے اور پینٹ کی جگہ انڈر ویئر تو خیر رہ ہی جائے گا۔ یعنی اتنی بھی ناامیدی ٹھیک نہیں۔ کچھ نہ کچھ تو بچ رہے گا۔ پشاور سے کابل‘ وہاں سے مزار شریف اور پھر ازبکستان کا شہر ترمذ(ترمذ شریف کے لیے) اور وہاں سے تاشقند۔ ایک زبردست تجارتی شاہراہ لیکن ہمارے والوں کو کوئی ’’زیردست‘‘ منظور نہیں‘ کیا کیجئے۔ اس شاہراہ کا۔ فرض کیجئے بن گئی تو‘ تجارتی ہی نہیں‘ سیاحتی معنویت بھی ہو گی اور ہم تو اس کے مذہبی اور روحانی گزرگاہ ہونے کو بھی اہمیت دیں گے۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے ماضی میں بلخ بخارا کی سرزمین کہتے تھے۔ پورے علاقے میں صوفیائے کرام کے مزارات ہیں اور قدیم درس گاہیں۔ ایک ایک شہر تاریخ کے کسی نہ کسی باب کا مدفن ہے۔ بلخ تو خیر اب افغانستان کا حصہ بن چکا لیکن تاشقند ‘ سمر قند‘ شہر سبز‘ ترمذ اور قرشی جیسے مقامات ازبکستان کا حصہ ہیں۔ بلخ ازبکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کا صوبہ ہے اور اس نام کا شہر اسی صوبے میں ہے، اگرچہ صوبے کا دارالحکومت نہیں۔ یہ شرف مزار شریف کو حاصل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مزار شریف دراصل بلخ کا توسیعی علاقہ تھا یعنی اسے بلخ سے بارہ میل دور نئے شہر کی حیثیت سے تعمیر کیا گیا تھا لیکن پھر ہوا یہ کہ یہ نیا شہر مشہور بھی ہو گیا اور بڑا بھی جبکہ بلخ اپنی تاریخ سمیت پس منظر میں رہ گیا۔ بہت سے سیاح اب مزار شریف جاتے ہیں۔ بلخ جانا بھول جاتے ہیں۔ شاہراہ بنی تو بلخ کی قسمت بھی پھر سے کھل جائے گی کہ روٹ تو یہی ہے۔ چلئے فی الحال تو سی پیک کی خیر منائیں‘ بلخ بخارے کے خواب پھر کبھی دیکھ لیں گے۔ ٭٭٭٭٭ دو تین روز پہلے دنیا بھر میں بزرگوں کا عالمی دن منایا گیا۔ ظاہر ہے‘ بزرگ دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں تو دن بھی ہر جگہ منایا جاتا ہے۔ پاکستان بھارت اور افغانستان جیسے ملک میں بزرگ اقلیت ہیں کہ اوسط عمر ہی ساٹھ سال ہے۔ بیشتر آبادی بزرگ ہو ہی نہیںپاتی‘ پہلے ہی ملک عدم روانہ ہو جاتی ہے۔ البتہ امریکہ یورپ جاپان کوریا وغیرہ میں بزرگوں کی کثرت سے بالعموم اسی نوے سال سے پہلے کسی کو مرنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ مسلمان اور کم ترقی یافتہ ملکوں میں بزرگ حضرات کو آثار قدیمہ خیال کیا جاتا ہے چنانچہ کچھ نہ کچھ خیال رکھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ لوگ ’’ٹریش‘‘ خیال کئے جاتے ہیں۔ جن کے ذاتی بنک کھاتوں میں بڑی رقم ہو۔ وہ تو کوئی ملازم وغیرہ رکھ کر بزرگی کے دن کاٹ لیتے ہیں لیکن باقی ماندہ کو انہی کی آل اولاد بزرگوں کے گودام میں جمع کرا دیتی ہے۔ ان گوداموں کو اولڈ ایج ہومز کہا جاتا ہے۔ ایک سال میں ایک بار ان کی اپنے بچوں سے ’’غائبانہ‘‘ ملاقات ہوتی ہے یعنی سالگرہ پر ان کی طرف سے پھول یا کارڈ آ جاتے ہیں۔ کارپوریٹ کلچر نے ان ملکوں کو خوش باش بیگار کیمپوں میں بدل دیا ہے۔ لوگ پانچ دن بیگار کاٹتے‘ دو دن چھٹی مناتے ہیں۔ بزرگوں کے لیے کوئی دن بچتا ہی نہیں ہے۔ جتنے بھی دن عمر مستعار کے ہوں‘ سکھ کے ہونے چاہئیں اور سُکھ مذہبی اور قدیم معاشرتی روایات کے احترام میں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ عالمگیر کارپوریٹ کلچر میں مذہب کی اور مذہب میں اس کلچر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔