بار الٰہا‘ آج تک اور آج سے پہلے بھی ہم نے جب بھی مانگا اپنے لئے مانگا‘ اپنے خاندان اور رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے مانگا مگر آج ہم اپنی حکومت کے لئے دست بہ دعا ہیں۔ اے مالک! ہماری التجا ہے کہ تو اس حکومت کو کامیابی عطا کر‘ اسے سرخرو کر‘ چاہے یہ حکومت کتنی ہی حماقتیں کرے۔ کتنے ہی یوٹرن لے‘ اپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کے کتنے ہی تاثر دے۔ انہیں اسی طرح فتح یابی دے جیسے انتخابات میں انہیں فتح ملی تھی۔ اے پروردگار خلق خدا کی بہت امیدیں اسی حکومت سے وابستہ ہیں حکومتی پارٹی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا‘ کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں نہ آئے اور کوئی آئے تو اپنے فضل و کرم سے اسے دور کر دے۔تو اس حکومت پر بھی فضل و کرم فرما اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کر۔ اس کے شر سے بھی خیر پیدا کر اور جو دعوے یہ کریں وہ پورے ہوں کہ یہ حکومت دعوئوں کی عادی ہے۔ اس کی یہ عادت تو اب کیا بدلے گی بس تو ہی ان کے وعدوں اور دعوئوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اے میرے آقا‘ تو جانتا ہے کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ جہاں کوئی بھی حکومت مشکل ہی سے اپنی مدت پوری کر پاتی ہے۔ تو ہماری کمزور جمہوریت کو آہنی جمہوریت میں بدل دے۔ اے مالک الملک‘ ہماری سیاست جو گند سے اٹی پڑی ہے۔ تو اسے صاف کر دے اگر ایسا نہ ہو تو ہمیں توفیق دے کہ ہم خود ایسی گندی سیاست اور گندے سیاست دانوں کا صفایا کر دیں جو سیاست میں کروڑوں لگاتے اور اربوں کھربوں کماتے ہیں۔ پروردگار ہم بہت بدنیت لوگ ہیں۔ کمائی کے ہر حرام طریقے پر ہماری نیت خراب ہو جاتی ہے۔ہر عہدے‘ منصب اور وزارت پر ہماری نظر بد ہوتی ہے۔ تو ہماری نظروں کو پاکیزہ بنا۔ ہمیں صاف نظر عطا کر کہہ جب بھی دیکھیں للچائی ہوئی اور رال ٹپکاتی نظروں سے نہ دیکھیں‘ اے میرے معبود‘ ہم گنہگار ہیں۔ خطا کار ہیں‘ سیاہ کار ہیں اسی لئے ہمیں ہر سال عمرے پر اور کبھی حج پر جانا پڑتا ہے تاکہ ہمارے اعمال کی سیاہی دھل سکے۔ ہم خود کو گناہوں سے پاک صاف کر سکیں اور جب عمرے اور حج سے واپس آئیں تو پھر وہی کچھ کریں جس کے لئے اگلے برس ہمیں پھر دیار مقدس جانا پڑے کہ تو غفور و رحیم ہے۔ تیری رحمت کی ایک لہر ہمارے سمندر جتنے گناہوں کو بھی دھونے کے لئے بہت کافی ہے۔ اگر ہمیں تیری رحمت پر بھروسہ نہ ہوتا تو ہم اتنے گناہ کرتے ہی کیوں؟ پس تو ہمیں معاف کر دے۔ ہمیں بھی اور ہماری حکومت کو بھی۔ اے پاک پروردگار ‘ تجھ سے زیادہ کون واقف ہو گا کہ یہ حکومت بری نہیں‘ وزیر اعظم بھی بھلے انسان ہیں۔ کینسر ہاسپٹل بنا چکے ہیں چاہے ،چندوں ہی سے سہی ایک عدد یونیورسٹی بھی تعمیر کر چکے ہیں، چاہے اس سے ملک میں پڑھے لکھوں کی جہالت دور نہ ہو سکی ہو لیکن اگر عمل کی بنیاد نیت ہے تو یہ سارے کام نیک نیتی یہ سے کئے گئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم چاہتے تو دوسرے وزراء اعظم کی طرح پرائم منسٹر ہائوس ہی کے عشرت کدے میں چین کی بانسری بجاتے لیکن وہ سادہ طبیعت انسان ہیں‘ سوراخوں والی قمیص پہنتے ہیں اور بنی گالہ کے شاندار محل کے صرف ایک کمرے کو اپنے لئے بہت کافی جانتے ہیں۔ گھڑی پہننے کو بھی عیاشی تصور کرتے ہیں، موبائل پر وقت دیکھ کر کفایت شعاری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ کابینہ کو بھوکوں مار کر اجلاس کرتے ہیں۔ عام طیارے میں سفر کرنے کا عندیہ دیتے ہیں اور کبھی کبھار کسی بڑی کانفرنس میں چارٹرڈ طیارہ بھر کر لے جاتے ہیں‘ ان چھوٹی موٹی فروگزاشتوں سے تو صرف نظر کر اور توفیق دے ہمارے وزیر اعظم کو کہ وہ جو کہیں اس پر ہمیشہ تو نہیں مگر کبھی کبھار عمل بھی کر لیا کریں۔ اے معبود‘ وزیر اعظم نے حکومت میں آج سے پہلے یکساں تعلیمی نظام اور یکساں نصاب رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پولیس کو خود مختاری دینے کا خواب دکھایا تھا۔ آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے اور کشکول توڑ دینے کا عزم کیا تھا۔ یہ سب وعدے و عید پورے نہ ہو سکے تو محض اس لئے کہ انہیں کب یقین تھا کہ واقعی ان کی حکومت آ جائے گی اگر یہ یقین ہوتا تو ایسے وعدے کرتے ہیں کیوں سوچ سمجھ کر‘ دیکھ بھال کرکہتے جو کچھ کہتے انسان کمزور ہے۔ تونے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ کمزور بھی ہے اور جاہل و ظالم بھی ہے۔ تو ہماری التجا ہے کہ اس کمزوری کو قوت بنا دے اور اس کے جہل و ظلم کو علم و عدل میں بدل دے تاکہ یہ ملک جو ان خوبیوں اور نعمتوں سے محروم ہے یہاں عدل اور علم دونوں عام ہو سکیں۔ اے پاک پروردگار‘ ہمیں اچھی بیورو کریسی، اچھی عدلیہ، اچھی اسٹیبلشمنٹ اور اچھے حکمران دے۔ عوام اچھے ہیں کہ اتنے اچھے کہ نالائق سے نالائق حکومت کو برداشت کر لیتے ہیں بلکہ انہیں بار بار برسر اقتدار لے آتے ہیں۔ محض اس خوش گمانی سے کہ شاید اب یہ اپنی اصلاح کر لیں۔ اب ان کی کارکردگی اچھی ہو جائے ایسے اچھے عوام کے صدقے اے پروردگار ! تو انہیں اچھے حکمران بھی دے اور اچھے حکمران میسر نہ ہوں تو برے حکمرانوں ہی کو اچھا بنا دے۔ اتنا اچھا کہ جب وعدہ کریں تو پورا بھی کریں بڑھکیں ماریں تو ان کی لاج بھی رکھیں۔ عوام کے غم میں آنسو بہائیں تو یہ آنسو مگرمچھ کے آنسو نہ ہوں۔ قوم کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور عمدہ ڈنر کھائیں تو اس کی تصویر اخباروں میں چھپنے سے روک دیں۔ سنسر کرا دیں تاکہ ننگے بھوکے عوام کو تسلی رہے۔ اے مالک الملک‘ ظلم کی رات کو طویل نہ کر‘ ناانصافی زیادتی‘ بدعنوانی‘ موقع پرستی‘ نفس پرستی اور مفاد پرستی کا خاتمہ کر دے ہمیں پیکر ایثار بنا دے۔ ہمیں احسان شناسی اور شکرگزاری سکھا دے۔ ہمیں درد مندی کی دولت عطا کر کہ یہ چیزیں یہ نعمتیں بازار میں دستیاب نہیں‘ ورنہ ہم انہیں خرید لاتے اور خود کو ان کے ذریعے اچھا بنالیتے کیونکہ اب مزید برائیاں برداشت نہیں ہوتیں ہم اپنی ہی بری عادتوں سے تنگ آ چکے ہیں اور بھلا مانس بننا چاہتے ہیں۔ مگر ہمیں نہیں معلوم کہ برے سے اچھا کیسے بنا جاتا ہے سو اے پروردگار ہمیں ہدایت دے ہمیں سیدھے راستے پر چلا اور جو ہم سیدھے رستے پر نہ چل سکیں تو ہمارے ٹیڑھے راستے ہی کو سیدھا کر دے تو ملاک و مختار ہے تیرے لئے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں۔ ہمیں دولت اور تونگری دے یا نہ دے مگر اتنی عقل ضرور دے کہ ہم دولت و تونگری کی خرابیوں سے آگاہ ہو سکیں۔ اے دو جہانوں کے مالک’ تونے ہمیں ایک شاندار خطہ زمین عطا کیا جس میں صحرا‘ سمندر ‘ پہاڑ اور خوشنما وادیاں ہیں‘ جہاں سال کے سارے موسم خزاں‘ بہار ‘ برسات سبھی ہیں جس کی زمین میں معدنی دولت کے انبار ہیں‘ پٹرول ہے‘ ہیرے جواہرات ‘ سونا چاندی اور جانے کون کون سی اور کیسی کیسی نعمتیں ہیں۔ مگر ہم پھر بھی ایک غریب اور مقروض قوم ہیں۔ پچاس فیصدی سے بھی زیادہ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ امارت اورغربت کی خلیج بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اے مالک! اس کی وجہ کوئی اور نہیں ہم ہی ہیں کیونکہ ہم میں کوئی بھی کسی غلطی‘ کسی خامی‘ کسی تباہی کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں۔ سیاست داں کہتے ہیں فوجی آمریت نے ہمیں تباہ کیا۔ دوسرے کہتے ہیں ملک کی نجات مارشل لاء میں ہے۔کوئی کہتا ہے عوام ہی ذمہ دار ہیں کہ بدعنوانیوں اور بدمعاشوں کو کندھوں پہ بٹھانے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔ اے پاک پروردگار اس بحث و مباحثہ کا کوئی نتیجہ آج تک نہیں نکلا اب تو ہی اپنے کرم سے اتنی توفیق دے دے کہ ہم دوسروں کی آنکھوں میں شہتیر تلاش کرنے کے بجائے اپنی آنکھ کے تنکے کو دیکھ لیں۔ دوسروں کے گریبانوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں اور جو کچھ اپنے گریبان میں نظر آ جائے اسے مان لیں اور اپنے دامن سے اپنے نامہ اعمال کو دھونے کی فکر کریں۔ اے پروردگار ‘ جب تک یہ نہ ہوگا محض حکومت کی کارکردگی پر واویلا مچانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ تو علیم و خبیر ہے۔ ظاہر و باطن کا حال جانتا ہے۔ اس لئے تو کرم فرما۔ اب کچھ ہونا ہے تو تیرے ہی فضل و کرم سے ہونا ہے۔ ہم نے تو ہار مان لی۔