آٹھ فروری 2024 ء کو ہونے والے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ ( 1970ء سے 2018 ء تک )کے بارہویں( 12th) انتخابات ہونگے۔ 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے تھے پھر اس کے بعد1977ء 1985، 1988، 1990،1993،1997،2002 ،2008، 2013 ء اور 2018 ء میں انتخابات منعقد ہوئے۔1970ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا اور پاکستان کا اکثریتی حصہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔1977ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اس قدر متنازع ہو گئے کہ فوج نے مارشل لاء لگاتے ہوئے سیاسی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔1985ء کے انتخابات مارشل لاء کی موجودگی میں غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے ۔تاہم ان نتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت بھی محض تین سال ہی پورے کرسکی۔اس کے بعد 1988ء سے1997ء کے دوران چار بار انتخابات کا انعقاد ہوا اور ہر بار سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔2002 ء سے2018ء کے دوران چار انتخابات ہوئے ۔سیاسی حکومتیں قائم رہیں تاہم ملک میں جمہوری سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوسکا ۔پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں اب تک یہ روایت بڑی دلچسپ رہی ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا ۔ اسمبلیاں قبل از وقت توڑی جاتی رہیں یا پھر اگر اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری بھی کی تو وزیر اعظم کو وقت سے پہلے جانا پڑا۔1985ء سے 1997 ء کے دوران اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ حکومتوں کا بھی خاتمہ ہوتا رہا۔ 2002ء سے 2018 ء کے درمیان اسمبلیوں نے تو اپنی مدت پوری کی مگر وزیر اعظم بدلتے رہے ۔2002 ء سے2007 ء کی اسمبلی کی مدت کے دوران تین وزرائے اعظم ظفر اللہ خان جمالی،چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز اس کے بعد 2008ء سے 2013 ء کی مدت میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف، اور2013ء سے 2018 ء کے دوران نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہے۔2018ء سے2023ء کی اسمبلی کی مدت میں عمران خان اور شہباز شریف وزیر اعظم رہے۔ ا ب آٹھ فروری 2024 ء کو ہونے والے انتخابات کا جو سیاسی ماحول موجود ہے اس کاپیش منظر بڑی حد تک شبہات میں گھر چکا ہے۔ان انتخابات سے سیاسی مبصرین کو سیاسی استحکام کی امیدیں کم ہی ہیں۔الیکشن کمیشن کے اقدامات اور انتظامات سے بیشترسیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہیں اورالیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہیں۔انتخابات جنہیں جمہوری سیاسی حکومتوں کے قیام اور استحکام کا سبب ہونا چاہیئے۔بار بار کے تجربات کے باوجود یہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا باعث ہی بنے ہیں۔آخر کیوں؟کیا سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا طرز عمل جمہو ری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا ۔یا پھر جیسا عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی نظام کو اپنی گرفت میں لیا ہواہے اور اس کا مفاد اسی میںہے کہ جمہوری سیاسی نظام کمزور رہے یا پھر پاکستان کی سماجی ساخت ابھی جمہوری سیاسی نظام کے لئے موزوں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب جانے بغیر پاکستان کے سیاسی نظام کی ساخت، کارکردگی اور اس کے ثمرات سمیٹنے والوں (BENEFICIARIES ) کی نشان دہی ممکن نہیں۔ پاکستان کا سماج اپنی ساختیاتی اساس میں قبائلی اور جاگیردارانہ مزاج کا حامل ہے جس میں طاقت کا حصول اور اس کا اظہار خواہ اس کی کوئی بھی شکل اور طریقہ ہو موئثر طور پر مروج ہے۔ ایک ایسے سماج میں ، جہاں قانون کی پاسداری، احترام آدمیت،سماجی مساوات،یکساں معاشی مواقع اور ادارارتی استحکام مفقود ہو،جمہوری سیاسی نظام کے ثمرات عوام تک پہنچنے کے بجائے محض بالائی طبقہ تک محدود رہتے ہیں ۔ برطانو ی نو آبادیاتی دور میں جو جمہوری سیاسی نظام متحدہ ہندوستان میں متعارف کرایا گیا تھا،اس میں مذہبی اور زرعی معیشت سے جڑے وفادار خانوادوں کی شمولیت کی راہ ہموار کی گئی تھی جس کا تسلسل آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔پاکستان کے قیام کو 76 سال گزرجانے کے بعد بھی اس سیاسی نظام کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں نہیں آسکی ہیں۔آج بھی دولت اور سرمایہ کی بنیاد پر اس سیاسی نظام میں سماج کے مقتدر طبقات نے نقب لگائی ہوئی ہے اور وہی اس نظام کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔موجودہ انتخابی نظام اور طریقہ ء کار سماج کے مخصوص اور محدود دولتمند طبقے کے لئے موزوں بنادیا گیا ہے۔ انتخابی اخراجات کے ضمن میں اگرچہ الیکشن کمیشن کے قواعد تو موجود ہیں مگر ان کے دیانت دارانہ اطلاق کے لئے کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔سیاست دانوں نے سماج میں موجود عقیدت اور عصبیت خواہ وہ مذہبی ہو،علاقائی ہو،لسانی ہو یا قبائلی ہو،ختم یا کم کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے لئے انہیں مذید مستحکم کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پا کستان کے ( جمہوری) سیاسی نظام نے،جب بھی اور جتنا بھی اسے موقع ملا،سماج کی ساخت کو بدلنے کی حقیقی کوشش نہیں کی۔اس عمل میں ریاستی اسٹیبلشمنٹ بھی پوری طرح شریک ہے ۔جمہوری سیاسی نظام کے ثمرات کو اگر عوام تک پہنچانا ہے تو موجودہ انتخابی نظام کو یکسر بدلنا ہوگا۔انتخابات کے عمل میں جب تک سماج کے تمام طبقات کی نمائندگی نہیں ہوگی سیاسی نظام عوامی مفاد کا تحفظ اور ترجمانی نہیںکر سکے گا۔بیشترسیاسی جماعتیں اور سیاست دان جو موجودہ سیاسی نظام کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں وہ کبھی بھی اسے بدلنا نہیں چاہینگے ان کا مفاد تو اس کے تسلسل اور استقرار میں ہے۔انتخابی نظام میں تبدیلی کا آغاز سیاسی اداروں میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کے عمل سے کیا جا سکتا ہے، سیاسی مبصروں اور دانشوروں کو اس کے مختلف پہلوئوں پر مزید غور کرتے ہوئے اس کے نفاذ کے لئے کوششیں کرنا چاہیئں ۔رائے عامہ کے اداروں کو بھی اسے اپنا موضوع گفتگو بنانا ہوگا ۔پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظا م میں تبدیلی اب ناگزیر ہو چکی ہے ۔ ورنہ اب تک کے سیاسی اور جمہوری سفر کی رائیگانی کی تاریخ موجود ہے !!