تحریک انصاف نے پنجاب کے لئے اپنے صوبائی امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے ، ایک لحاظ سے ان کی انتخابی حکمت عملی کی پہلی جھلک سامنے آ گئی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ایک طرف ن لیگ ابھی تک امیدوار فائنل کر کے ٹکٹ نہیں جاری کر رہی کہ وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ الیکشن چودہ مئی کو نہیں ہو رہا، دوسری طرف تحریک انصاف جلد الیکشن ہونے کے تاثر کو مستحکم کرنا چاہتی ہے، اس لئے انہوں نے اپنے امیدوار فائنل کر لئے۔ پنجاب اسمبلی کی دو سو ستانوے (297) نشستیں ہیں ، ان میں درجن بھر سیٹیں البتہ ایسی ہیں جہاں ابھی تک تحریک انصاف کاامیدوار فائنل نہیں ہوا، باقی ہر سیٹ پر اعلان ہوگیا۔ دو ہزار تیرہ اور دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے برعکس اس بار سیٹوں کے فیصلے عمران خان خود کر رہے ہیں۔ ٹانگ پر گولی لگنے اور پھر پولیس کے آپریشن کے پیش نظر وہ کئی ہفتوں سے زمان پارک لاہورکے اپنے گھر ہی میں وقت گزار رہے ہیں، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان نے سینکڑوں امیدواروں کا خود انٹرویو کیااور خاصی چھان پھٹک کے بعد ٹکٹوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے ، ورنہ اس سے پہلے عمران خان یہ کام پارلیمانی بورڈ اور کمیٹیوں پر چھوڑ دیتے تھے۔ پچھلے دونوں الیکشن میں پی ٹی آئی پنجاب کے بعض رہنمائوں پر ٹکٹیں فروخت کرنے کا الزام لگا تھا۔ اس بار بھی ایک لیک آڈیو سامنے آئی یا لائی گئی جس سے یہ تاثردیا گیا کہ صرف ان امیدواروں کو ٹکٹ ملے گا جوکم از کم ایک کروڑ روپے پارٹی فنڈ میں دیں گے۔ معلوم نہیں یہ بات کس حد تک درست ہے۔ اگر ٹھیک ہے تب بھی بہرحال اس بار پیسے پارٹی فنڈ میں گئے ہوں گے جن سے الیکشن کمپین چلائی جا سکے گی، ورنہ دوسری صورت میں تو دو تین رہنمائوں کی ذاتی جیب میں چلے جاتے۔ سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دئیے ہیں اور نظریاتی کارکن ایک بار پھر محروم رہ گئے وغیرہ وغیرہ۔ شور مچانے والوں میں ظاہر ہے تحریک انصاف کے وہ لوگ یا ان کے حامی بھی شامل ہیں جنہیں ٹکٹ نہیں مل سکا۔ بڑی جماعتوں میں یہ اکثر ہوتا ہے ، جہاں ایک سیٹ پر تین تین چار چار تگڑے امیدوار موجود ہوتے ہیں، وہاں جس کو بھی ٹکٹ ملے، باقیوں نے ناراض ہی ہونا ہوتا ہے۔ یہ بات بہرحال درست ہے کہ بیشتر جگہوں پر اچھے، مضبوط اور تگڑے امیدواروں کو لیا گیا ہے، ایسے لوگ جو الیکشن جیت سکیں، کمپین کا خرچہ بھی اٹھا سکیں۔ یہ نکتہ مگر ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پنجاب اسمبلی کے ایک سو اسی ارکان نے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔انہیں پی ڈی ایم رہنمائوں کی جانب سے بے پناہ مالی ترغیب کا سامنا تھا، طاقتور حلقوں کا دبائو بھی رہا ہوگا، اس کے باوجود یہ سب ارکان اسمبلی کمیٹیڈ رہے، انہوں نے عمران خان کے ساتھ وفاداری نبھائی ۔ ان ارکان اسمبلی کو علم تھا کہ اعتماد کا ووٹ ملنے کی صورت میں پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی، اس کے باوجود انہوں نے اعتماد کا ووٹ ڈالا۔ فطری طور پر تحریک انصاف اور عمران خان کو جواب میں ان کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ نوے فیصد کے قریب نشستوں پر پچھلی بار کے امیدواروں ہی کو اکاموڈیٹ کیا گیا ہے، جسے غلط فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔ چند جگہوں پر البتہ مختلف الزامات کی وجہ سے امیدوارتبدیل کئے گئے، فیصل آباد میں دو حلقوں سے ایسا کیا گیا، ایک صاحب نے رانا ثنااللہ کو ہرایا تھا، مگر ان پر خاصے الزامات عائد ہوتے رہے، اس لئے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ دوسرے کی جگہ میاں زاہد سرفراز کے صاحبزادے علی سرفراز کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہ بھی اچھا فیصلہ ہے۔ فیصل آباد سے ایک دو سابق وزرا کو ٹکٹ نہیں دیا اور انہیں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا کہا گیا ہے۔ ملتان میں ظہیر علیزئی سابق ایم پی اے تھے، ان کے والد اور دادا علیزئی نواب رہے ہیں،اس بار انہیں شائد ٹکٹ ملنے کی امید نہیں تھی یا کوئی اور وجہ کہ انہوں نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا۔ اس سیٹ پر مخدوم شاہ محمود قریشی کی کوشش سے معین ریاض قریشی کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ڈی جی خان سے ایک سیٹ پر مجلس وحدت المسلمین کے امیدوار غضنفر عباس کو اکاموڈیٹ کیا گیا، اس حلقے میں تحریک انصاف کے مقامی کارکن ناراض اور ناخوش ہیں، یہاں لغاری قبیلے کے کسی امیدوار کو لانا چاہیے تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چودھری سرور کے بھائی چودھری رمضان کو ٹکٹ دیا گیا، اس کی وجہ یہ رہی کہ چودھری رمضان نے اپنے بھائی سے معذرت کرتے ہوئے تحریک انصاف کا ساتھ دیا، ویسے بھی وہ پرانے انصافین ہیں۔ سرگودھا میں مجموعی طور پر مناسب فیصلے ہوئے، ایک حلقے میں ممتاز کاہلوں کے بیٹے عبداللہ ممتاز کاہلوں کو ٹکٹ دیا گیا، یہ قدرے کمزور سیٹ ہے مگر عمران خان شائد ممتاز کاہلوں کو اکاموڈیٹ کرنا چاہتے تھے، جن سے پچھلی بار زیادتی ہوئی اور ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔ پنڈی میں نوے پچانوے فیصد پچھلی بار کے امیدوار ہیں، البتہ چودھری نثار کے مقابلے میں ایک نئی خاتون کو ٹکٹ دیا گیا، یہ بھی کمزور امیدوار ہیں۔ مجبوری سے ایسا ہوا یا چودھری نثار کو فیور دینا مقصد تھا، اس کا اندازہ نہیں۔ اوکاڑہ میں منظور وٹو فیملی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، اس لئے کہ پچھلے ایک سال میں وٹو صاحب کہیں نظر ہی نہیں آئے۔ نظریاتی کارکن ہر جگہ پر اکاموڈیٹ نہیں ہوسکے۔ البتہ لاہور کے کئی حلقوںمیں نظریاتی کارکنوں اور انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوانوں کو ٹکٹ دینے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا گیا۔ اہور جیسے شہر میں چھ سات حلقوں میں نوجوان اور کارکن ٹائپ لوگوں کو ٹکٹیں دی گئی ہیں جنہوںنے پچھلے ایک سال میں ماریں کھائیں، جیل بھرو تحریک میں بھی گئے اور سب کچھ کے باوجود استقامت سے کھڑے رہے۔ مثال کے طور پر پی پی 149سے عباد فاروق کو ٹکٹ دیا گیا، یہ جذباتی ورکر ہیں، جیل بھرو تحریک میں بھی شامل تھے، ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں پولیس کی گاڑی پر کھڑے احتجاج کر رہے تھے۔ پی پی 146 سے ملک وقار کو ٹکٹ ملا، یہ نظریاتی کارکن ہیں۔ پی پی 144سے یاسرگیلانی کوٹکٹ دی گئی ، تحریک انصاف میںگراس روٹ لیول سے اوپر آئے، خاصی محنت کی اور استقامت سے کام کر رہے۔ پی پی 160سے تحریک انصاف لائرز ونگ کے فعال رکن حیدر مجید کو ٹکٹ دی گئی، تیس پینتس سالہ نوجوان حیدر مجید کئی برسوں سے لائرز ونگ میں بہت متحرک رہا۔ حافظ فرحت سے ہم میڈیا والوں کا برسوں پرانا تعلق ہے، یہ پارٹی میں بہت ایکٹو اور کمٹیٹد رہے ہیں، انہیں پچھلی بار بھی ٹکٹ ملا، اس بار بھی دیا گیا۔ پی پی 161سے عمار بشیر گجر کو ٹکٹ ملا، یہ بھی انصاف یوتھ ونگ سے آئے ۔ پی پی 159سے اعظم نیازی کو ٹکٹ دیا گیا، انکی فیملی کی بس سروس مشہور ہے۔ ان کے کاروبار کو براہ راست نشانہ بنایا، اعظم نیازی اور ان کی فیملی ڈٹے رہے، ٹکٹ ان کا حق تھا۔ لاہور تنظیم کے ذمہ دار شیخ امتیاز کو ٹکٹ ملا، ان کی بھی پارٹی کے لئے قربانیاں اور جدوجہد ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سات آٹھ لوگوں کو عمران خان نے ان کی قربانیوں کی وجہ سے ٹکٹ دی ہے۔ لاہور سے بعض ٹکٹیں اہم اور نسبتاً معروف لوگوں کو ملی ہیں جیسے سابق صوبائی وزیر ملک اسلم اقبال، ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمودالرشید، محمود الرشید کے داماد اکرم عثمان جو ضمنی الیکشن میں بھی فاتح رہے تھے۔سابق وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کو ابھی تک ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ زبیر نیازی پچیس مئی کے لانگ مارچ میں مشہور ہوئے تھے۔البتہ پی پی ایک سو باسٹھ سے ابھی فیصلہ نہیں ہوا، یہاں ظہیر کھوکھر ضمنی الیکشن میں جیتے تھے، معلوم نہیں اس حلقے میں تاخیر کیوں کی جا رہی ؟ عمران خان نے اس بار ٹکٹیں دیتے ہوئے اپنی اتھارٹی اچھی طرح منوائی ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے بعض اہم اور طاقتور رہنمائوں کو جو شائد من ہی من میں خود کومستقبل کا وزیراعلیٰ سمجھ رہے تھے، انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمیںمرکز میں آپ کی ضرورت ہے۔ ان میں مخدو م شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، حماد اظہر وغیرہ شامل ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کو البتہ صوبائی اسمبلی کاٹکٹ دیا گیا بلکہ ان کے صاحبزادے مونس الٰہی کو بھی صوبائی اسمبلی پر لایا گیا ہے۔ وہ پچھلی بار ایم این اے بنے تھے۔ مونس الٰہی عمران خان کی گڈ بکس میں ہیں، ممکن ہے وہ انہیں پنجاب میں کوئی اہم کردار دینا چاہتے ہوں۔ مجموعی طور پر تحریک انصاف نے اپنی الیکشن کمپین کے پہلے رائونڈ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے، دس میں سے ان کے ساڑھے سات یا آٹھ نمبر بنتے ہیں۔نوے پچانوے فیصد امیدوار مضبوط، تگڑے اور مقامی سطح پر کسی بھی قسم کی الیکشن رِگنگ کی مزاحمت کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ اس بار یہ بھی بہت ضروری ہے کہ الیکشن لڑنے کے ساتھ الیکشن میں جیت بھی بچائی جائے۔ یک رخے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی موجودگی میں امیدواروں کا مضبوط اور مستعد ہونا بہت ضروری ہے۔ امیدواروں کی فہرست پڑھتے ہوئے یہ نکتہ ذہن میں رکھا جائے تو عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سمجھ آ جاتی ہے۔