پاکستان کی سیاست میں کچھ نیا ہونے جا رہا ہے۔پہلی دفعہ کسی منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو رہی ہے۔ پاکستان میں پہلی بار پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم اکٹھے کسی ایک حکومت کا حصہ بنیں گے۔ تادم تحریر اپوزیشن کے پاس 175 ارکان موجود ہیں اور 21 منحرف ارکان کو ملا کر تعداد 196 تک پہنچ جاتی ہے۔ اب عمران حکومت کی بقا صرف ایک بات میں ہے کہ ملک کے مقتدر حلقے پوری قوت کے ساتھ عمران خان کے پیچھے کھڑے ہوجائیں۔ عمران خان نے جلسہ میں جو خط لہرایا ہے اس کے اثرات ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئے۔اگر عمران خان اپنا بیانیہ قوم کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں تو اگلے الیکشن میں وہ موجودہ اپوزیشن کے اتحاد کے لئے مسائل پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ابھی دو دن باقی ہیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس تحریک عدم اعتماد میں کافی اندرونی عناصر اور بیرونی عناصر کا عمل دخل ہے۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو اسکے کیا نتائج ہونگے۔ نواز شریف کی واپسی ہو جائے گی اور وہ ملکی سیاست میں دوبارہ فعال ہو سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو سندھ میں گورنرشپ مل سکتی ہے، کراچی میں اسکا ایڈمنسٹریٹر ہو گا۔ بلوچستان میں مینگل اور بگٹی گروپ اقتدار میں ہونگے۔ الطاف حسین کی واپسی بھی ہو سکتی ہے۔ایسا لگ رہا ہے ملک 1999 سے پہلے کی صورتحال میں جا رہا ہے۔ جہاں کوئی اپوزیشن نہیں ہے اس دور کی اپوزیشن اور حکومت ایک ہو گئی ہے۔مگر ایک تبدیلی آچکی ہے اور وہ تبدیلی ہے پاکستان کی سیاست میں عمران خان فیکٹر۔عمران خان اس وقت بھی سب سے مقبول لیڈر ہیں ۔ ایک بڑا طبقہ ان کا فین ہے۔ نوجوان نسل ان کو پاکستان کا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر 2011ء کی پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ اب دوبارہ اس پر نظریاتی لوگوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر زیادہ تر فصلی بٹیرے اپنے اپنے گھونسلوں میں جا پہنچے ہیں۔ ابھی فلم پوری ختم نہیں ہوئی چند سین ابھی باقی ہیں۔ چین کی سفارتکاری بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ چین اپنے مفادات کو بچانے کے لے کس حد تک جائے گا یہ بات ابھی صیغہ راز ہے۔ افغانستان کی صورتحال بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں بہت زیادہ دنگا فساد اور بد امنی کی کیفیت بھی ہو سکتی ہے۔ عمران خان حکومت سے نکلنے کے بعد اپنے مخالفین کے لے کس حد تک خوفناک ہو سکتے ہیں اسکا ابھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ نئی بننے والی حکومت کتنے دن قائم رہے گی اور وہ موجودہ مسائل کو کس طرح حل کرتی ہے یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔ آنے والے الیکشن میں کون کون سی جماعت انتخابی اتحاد بناتی ہے ابھی اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنما تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن انکے ووٹر کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا ووٹر کبھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گا۔مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کس حد تک پاکستان تحریک انصاف کا راستہ کے پی کے میں روکتی ہے۔ سندھ میں الیکشن پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا۔ شہری سیٹوں پر مقابلہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیاں ہوگا۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے مقابل جمیعت علمائے اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ہو گی۔ اصل میدان پنجاب میں سجے گا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا احیا ہو سکتا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کس جماعت کو اپناتا ہے کئی سیٹوں کا فیصلہ اس بات پر ہوگا۔ اگلے لیکشن میں نعرہ کون سا مقبول ہوگا۔ روٹی ، کپڑا اور مکان۔ ووٹ کو عزت دو ۔پاکستان تحریک انصاف کونسا نعرہ اپناتی ہے ابھی پتہ نہیں تبدیلی کا نعرہ تو اب پرانا ہو گیا ۔ اسی طرح نیا پاکستان بھی نہیں بن سکا۔ اس الیکشن میں کون سے ایشو اہم ہونگے۔ مہنگا ئی ، ترقی ، ملکی غیرت سب سے پہلے۔میرا اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی قومی غیرت یا ملکی خود مختاری کو اپنی الیکشن مہم کا حصہ بنائے گی۔ اس بار الیکشن میں بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم کو لیڈ کریں گے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز پاکستان مسلم لیگ نواز کی الیکشن مہم کو لیڈ کریں گے۔ نواز شریف اور شہباز شریف بھی اس الیکشن میںنظر آئیں گے۔ ملک کا صدر کون ہوگا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کیا 1970ء کا بھٹو بن سکتا ہے۔ کیا پاکستان تحریک انصاف کلین سویپ کر سکتی ہے۔ ابھی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آنے والی حکومت کو کئی کام کرنا باقی ہیں۔ الیکشن ریفارم کو واپس کرنا ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل بھی واپس ہو سکتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق بھی نئی حکومت واپس لے سکتی ہے۔اور اس کے بعد سمندر پار پاکستانیوں کا ردعمل کیا ہوگا یہ بھی غور طلب بات ہے۔عمران خاں نے آنے والوں کے راستے میں کافی کانٹے بچھا دیئے ہیں۔الیکشن ریفارم کی شکل میں جو قانون سازی ہو چکی ہے اسکو واپس کرنا آسان بات نہیں ہے۔ مہنگائی اور ڈالر کی قیمت کو پہلے والی جگہ پر لانا جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنا ہے۔ اب یہ چیلنج ہوگا شہباز شریف اور جناب آصف علی زرداری کے لئے کہ ڈرائیور تو انہوں نے بدل دیا ہے اب بس کو روڈ پر چلانا ان دو افراد کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی اب جس نہج پر چل نکلی تھی اب اسکو واپس رول بیک کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔اب یہ بات بھی ذہن میں رکھیں یہ 2022ء ہے 1977ء نہیں۔ اب آپ میڈیا کو اسطرح کنٹرول نہیں کرسکتے۔ فیس بک، یوٹیوب اور ٹویٹر اب اتحادی حکومت کے سب سے بڑے حریف ہونگے۔