گزشتہ جمعے کو بچوں کی تربیت کے حوالے سے کالم لکھا تو اس پر غیر معمولی ردعمل آیا۔ والدین کی اس موضوع میں دلچسپی تو فطری تھی مگر مجھے حیرانی ہوئی کہ کچھ طالب علموں کی ای میلز بھی مجھے موصول ہوئیں اور انہوں نے بھی اس موضوع میں دلچسپی ظاہر کی۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ ایک بچہ کتابوں کی ایک دکان پر جا کر کہتا ہے کہ بچوں کی تربیت کے بارے میں کوئی کتاب آپ کے پاس ہے۔ دکان دار حیران ہو کر پوچھتا ہے بیٹا!آپ نے کیا کرنی ہے۔ تو بچہ معصومیت سے جواب دیتا ہے میں دیکھنا چاہتا ہوں میرے والدین میری تربیت ٹھیک کر رہے ہیں۔تعلیم کے نام پر تو ہم بچوں کو اپنی بساط کے مطابق اچھے سکول میں بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں مگر تربیت۔ کا بھاری پتھر کون اٹھائے گا یہ سوال مسلسل اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ تربیت کرنا بچوں کی ذہنی ساخت بنانا ان کے رویوں اور ان کی سوچ کو ایک مثبت سانچے میں ڈھالنا دو اور دو چار والا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی تربیت تعلیم کی طرح سے ہے کہ فلاں ڈگری حاصل کر لی اور اتنے اعلیٰ گریڈز لے لیے تو ہم دعویٰ کرتے پھریں کہ اس بندے کی تربیت بہت اچھی ہے۔ تربیت روح سے جڑا ہوا ایک عمل ہے اور یہ ایک مسلسل سفر ہے۔ یہ مادیت پرستی سے مختلف‘ سطحی تناظر سے دور ایک گہرائی والا روحانی راستہ ہے۔ میرے نزدیک ہر وہ راستہ جو آپ کی اپنی ذات کی ’’میں‘‘سے نکال کر اپنے خالق اور اس کی مخلوق کی بھلائی کے ساتھ جوڑ دے ایک روحانی راستہ ہی تو ہوتا ہے۔ میں اس کو ایک چھوٹی سی مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ سب والدین اپنے بچوں کے لئے شاندار مستقبل کے خواہاں ہوتے ہیں۔ بہترین ڈگری ‘بہترین کاروبار ‘نوکری اور معاشرے میں اعلیٰ سٹیٹس کا حصول ایک ایسی دوڑ ہیں جس میں آج کل تمام نوجوان اپنے اپنے معیار کے مطابق جتے ہوئے ہیں۔جب آپ اپنے بچے سے یہ کہتے ہیں کہ تم نے سی ایس ایس کرنا ہے اس لئے تمہاری خاندان میں واہ واہ ہو ۔معاشرے میں ہمارا رعب بڑھے یا پھر تم میڈیا پرسن بنو کہ تمہارا معاشرے میں ٹہکا ہو۔ تم سی اے کرو تاکہ خوب پیسے کمائو تو آپ اپنے بچے کے سارے خوابوں کو مادیت پرستی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ اسے یہ سکھاتے ہیں کہ تمہاری زندگی میں تمہاری ذات سب سے اہم ہے تم اپنے خوابوں کو پانے کے لئے بھلے دوسروں کو روندتے ہوئے گزر جائو۔ ایسے بچے اپنی خواہش اور خوابوں کے راستے میں اپنے والدین کی ذمہ داریوں کو بھی بوجھ سمجھنے لگتے ہیں لیکن جب آپ اپنے بچے کو یہ کہتے ہیں کہ بیٹا تم نے فلاں شعبے میں جانا ہے تاکہ تم زیادہ سے زیادہ دوسروں میں خیر بانٹ سکو۔ تم اپنے بساط کے مطابق اپنے اردگرد پسے ہوئے‘ نادار طبقے کی فلاح کے لئے کچھ کر سکو جس سے اللہ اور اس کی مخلوق راضی ہو۔ تو آپ اپنے بچے کے اندر روحانیت کا بیج بو دیتے ہیں آپ اسے اس کی ذات کے دائرے سے نکال کر خالق اور اس کی مخلوق سے جوڑ دیتے ہیں۔ زندگی کے مقصد کو ایک تنگ دائرے سے نکال کر اعلیٰ اور ارفع کر دیتے ہیں اور بچوں کی سوچ کو یہ رخ دینے کے لئے والدین آغاز سے ہی بچوں کی ذہنی ساخت بنانے میں اس بات کا دھیان کرنا چاہیے۔ آغاز سے ہی دینے‘ شیئر کرنے اور بانٹنے کو ان کی تربیت کا حصہ بنائیں۔ان کے ہاتھوں سے ضرورت مندوں کو دلوائیں۔ انہیں تحریک دیں کہ وہ اپنی پاکٹ منی سے بھی کچھ حصہ نکال کر اپنے جیسے مگر غریب اور نادار بچوں کو کچھ نہ کچھ دیں۔ وہ کھلونے جو اچھی حالت میں ہیں اور بچے ان سے نہیں کھیلتے انہیں اچھی طرح صاف کر کے لفافے میں ڈال کر بہتر طریقے سے کسی ضرورت مد کو پیش کر دیں۔ آپ یقین کریں کہ بچے ہی اس روحانی خوشی کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں جو انہیں بانٹ کر اور شیئر کر کے حاصل ہوتی ہے فطری طور پر بچہ اپنی چیز کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا اس لئے شیئر کرنا اسے سکھانا پڑتا ہے۔ یہ تو آپ نے سن رکھا ہو گا کہ sharing is caring۔اپنی چیز کو بانٹنے والے ہی دوسروں کا خیال کرنا سیکھتے ہیں اس سے انسانی فطرت کے اندر خود غرضی اور لالچ کے کانٹے کم ہوتے ہیں آغاز سے ہی بچے کے اندر کشادہ دلی کے پھول کھلنے لگتے ہیں اور جس کا دل دینے میں کشادہ ہو جائے وہ سچی خوشی کا راز پا لیتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بچے فطری طور پر اپنی شے کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتے چھوٹے بچوں کی چھوٹی چھوٹی معصوم خود غرضیاں تو والدین کو اچھی لگتی ہیں وہ اس پر ہنس دیتے ہیں اور بچہ سمجھ کر اس رجحان کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بہن بھائی تک آپس میں چیزوں کو شیئر نہیں کرتے والدین کہتے ہیںچلو کوئی بات خود ہی بڑے ہو کر ٹھیک ہو جائیں گے اور ہوتا یہ ہے کہ بڑے ہونے پر خود غرضی اور لالچ کے کانٹے اور بڑے پہلے سے نوکیلے ہو جاتے ہیں اور اس وقت سوچ اور رویوں کو بدلنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں معاشرے کی تصویر کو غور سے دیکھیں اوپر سے نیچے تک یہ جو نفسا نفسی ہے جو ہوس کی تباہ کاریاں ہیں۔ معمولی کرپشن سے اربوں کھربوں کی کرپشن کی غضب کہانیاں۔ یہ جو ہر قسم کے چھوٹے بڑے سرکاری اور نجی طفیلئے ‘ سیاسی طفیلئے‘ کاروباری اور بیورو کریٹک طفیلئے ‘ صحافتی اور رنگ رنگ پیشوں سے منسلک طفیلئے اس ملک کو چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ جو حرکت تیز تر اور سفر آہستہ والا عارضہ دہائیوں سے اس ملک کو لاحق تو یہ سب لالچ ہوس اور خود غرضی ہی کا شاخسانہ تو ہے۔ یقینا یہاں زمین کا بوجھ اٹھانے والے بھی موجود ہیں۔ زمین کا بوجھ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں والدین نے کم سنی میں دوسروں کو دینے‘ بانٹنے اور احساس اور احساس جیسے روحانی عمل سے جوڑ دیا تھا اور ان کے دل میں درد کا ایک دیا روشن کر دیا تھا تاکہ وہ جہاں بھی ہوں جس ہی شعبے میں ہو‘ وہاں خیر بانٹتے رہیں۔