اپوزیشن کا خیا ل تھاکہ باز آبادکار ی اور دیگر ایشوز کو اٹھا کر وہ عوام کے ایک بڑے طبقہ کو اپنے حق میں ہموار کریں گے۔ مگر حتائی صوبہ کے بغیر زلزلہ سے متاثر دیگر سبھی صوبوں میں اردوان کو کامیابی ملی ۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی،کہ انہوں نے چھ لاکھ کے قریب گھر مفت بنانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ زلزلہ سے متاثرین کا بھی کہنا تھاکہ وہ اب اسوقت اقتدار کی تبدیلی نہیں چاہتے ہیں۔ کیا معلوم کہ نئی حکومت اس وعدے کا ایفا کرے یا نہ کرے۔ کلیچ داراولو نے ایک مثبت ایجنڈا پیش کرنے کی کوشش کی جس میں امید ، آزادی اور جمہوریت کا وعدہ کیا گیا تھا۔لگتاتھاکہ اگر وہ برسراقتدار آتے ہیں تو ترکیہ کی یورپی یونین میں شامل ہونے کا راستہ صاف ہوسکتا ہے۔ لیکن پہلے راؤنڈ میں صرف 44.9 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے یو ٹرن لیکر خود کو ایک سخت گیر قوم پرست کے طور پر پیش کیا، جس سے انہوں نے کرد ووٹروں کو تذبذب میں ڈالا۔ پھر انہوں نے نسل پرست جماعت وکٹری پارٹی کے سربراہ امت اوزدگ کے ساتھ ہاتھ ملایا، جس سے ان کے اعتدال پسند حامی بپھر گئے۔ مغربی میڈیا کی طرف سے بڑے پیمانے پر امکانی انتخابی دھاندلی کے خدشات بھی بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں، حالانکہ کئی چھوٹی موٹی شکایات الیکشن کونسل کے پاس زیر التوا ہیں۔ پہلے راؤنڈ میں ریکارڈ 89% اور دوسرے میں 84.22% ووٹر ٹرن آؤٹ ہونے کے باوجود ووٹنگ کا عمل نہایت ہی پر امن تھا، جس سے لگتا ہے کہ قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ ترک باشعور قوم بھی ہے۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات ترکیہ اور دنیا کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟۔ ترکی کی جیوسٹریٹیجک پوزیشن اسے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک اہم کھلاڑی بناتی ہے۔اسی لئے ان انتخابات کو 2023 کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا جا رہا تھا۔ اردوان کی جارحانہ خارجہ پالیسی نے بیرون ملک ترکی کے پروفائل کو بڑھا تو دیا لیکن نیٹو اور مغربی اتحادیوں کے ساتھ یہ شدید اختلافات کا بھی باعث بنا۔دوسری طرف اسلامی ممالک کی لیڈرشپ کی چاہت نے اسکو سعودی عرب ، متحدہ امارات اور مصر کے روبرو کھڑا کردیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران جو مثبت تبدیلی آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ترکیہ کے تعلقات سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ معمول پر آرہے ہیں۔ ان ملکوں نے حالیہ دنوں میں ترک معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ روس اور سعودی عرب کی ثالثی سے شام کے ساتھ تعلقات میں اسی طرح کی بہتری کی امید نظر آتی ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور انٹیلی جنس حکام نے حال ہی میں ماسکو میں کئی ادوار کی بات چیت کی ہے۔ شاید جلد ہی روس کی ثالثی کی وجہ سے اردوان اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد کے ساتھ ملاقات کریں ۔ اب تک کی بیان بازی کے باوجود مغرب کے پاس اردوان کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اردوان کے لیے ایک بڑا چیلنج امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنا ہوگا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے نسبتاً دوستانہ تعلقات تھے لیکن موجودہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات ٹھنڈے ہیں۔ کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں پر بیانات دینے کی وجہ سے اردوان نے بھارتی حکومت کو خاصا زچ کیا تھا۔ مگر ان تعلقات میںجمی برف اب پگھل چکی ہے۔ وہ ستمبر میں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔اس وجہ سے حالیہ عرصے میں انکی حکومت نے کشمیر اور بھارت کے دیگر اندرونی مسائل پر بیان بازی کو کم کرنے کے لیے ایک عمل شروع کیا ہے۔حالیہ مہینوں میں کئی سالوں کے بعد دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے درمیان مشاورتی میکانز م کی میٹنگیں ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ ترکیہ نے جب بھارت میں کوویڈ کی دوسری لہر کے دوران امداد بھیجی تو ان پیکٹوں پر جلال الدین رومی کی ایک نظم پرنٹ کی گئی تھی جس کا ترجمہ اور مفہوم یہ تھا : ''مایوسی کے بعد امید ہے، اندھیرے کے بعد بہت سے سورج ہیں۔'' دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں بس دو سال میں 100 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو 2021-22 میں 10.70 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ -2020-21میں یہ صرف 5 بلین ڈالر تھی۔ بھارتی کمپنیوں نے ترکیہ میں تقریباً 126 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ترک صحافی فہیم تسٹیکن کے مطابق اروان اپنی تیسری صدارتی مدت کے دورا ن زنگیزور کوریڈور کے منصوبے پر تیزی سے کام کرینگے۔ ترکیہ کا یہ منصوبہ ایک طرح سے چین کے بی آرٹی کوریڈور کی طرح نیٹ ورک پروجیکٹ ہے۔ نقل و حمل کا راستہ ترکیہ کو آذربائیجان سے براہ راست منسلک کرے گا۔ یہ راہداری ترکیہ کو بحیرہ کیسپین تک رسائی فراہم کرے گی اور وسطی ایشیا میں ترک ریاستوں کے ساتھ ایک راہداری دے گی۔ ترک ریاستوں تک پہنچنے کیلئے ترکیہ کے پاس براہ راست راہداری کی سہولت میسر نہیں ہے۔ جہاں فلسطین کو چھوڑ کر دیگر عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، ترک ممالک میں سے بیشتر داغستان، تاتارستان، بشخورستان تو روس کے قبضہ میں ہیں وہیں سنکیانگ چینی قبضہ میں ہے۔ وسط ایشیاکی ترک ریاستوں قزاقستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغیزستان تک بھی اسکی رسائی نہیں ہے۔ اگر یہ راہداری بن جاتی ہے تو ترک دنیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو جائیگی۔ مگر اس راہداری کیلئے لازم ہے کہ ترکیہ کے تعلقات روس اور ایران کے ساتھ خوشگوار رہیں۔ اس راہداری کے ذریعے اردوان ترک دنیا کو متحد کرنے اور دوبارہ رابط استوار کرنے کی وجہ سے تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مغرب کیلئے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیئم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ۔ اس کے برعکس برطانیہ ، امریکہ ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔ کہتے ہیں 570سال قبل ترکو ں کے ذریعے استنبول یا قسطنطنیہ کی فتح رومن سلطنت کے زوال کا سبب تو بن گئی، مگر اس نے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک کو مہمیز دی۔ کیا اردوان کی 2023 کی فتح ایک بار پھر یورپ اور دیگر مغربی طاقتوں کو ایک نئی نشاط ثانیہ کی تحریک برپا کرنے پر مجبور کردیگی، جس میںبرابری اور برادری کے اصولوں کو اپناکر ، سیکولر ازم کی ازسر نو تشریح کے ساتھ ساتھ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کے خاتمہ پر زور دیا جائے۔ ٭٭٭٭٭