مائیک پومپیو نے واشنگٹن سے اسلام آباد روانگی سے پہلے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈنفورڈ کو آگاہ کیا، ہم پاکستان سے تعلقات کے نئے دورکے متمنی ہیں، یہ پیغام انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک بھی بھجوایا(یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ تعلق اور تعلقات دو علیحدہ علیحدہ مفہوم کے الفاظ ہیں) حکومت امریکہ کے ان دونوں اہم ترین عہدیداروں نے اسلام آباد میں طیارے سے اترنے کے بعد ٹوٹل پانچ گھنٹے پاکستان میں گزارے اوران پانچ گھنٹوں میں اپنے ہم منصبوں سے چالیس منٹ کے مذاکرات کئے، جلد باز مہمانوں کے انڈیا پرواز کر جانے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو سفارتی زبان میں بریفنگ دی، ان کے چہرے کے تاثرات سے عیاں تھا جیسے انہوں نے ایک بہت بڑی شادی کو ٹوٹنے سے بچا لیاہو، حالانکہ ایک دن پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ اب پہلی سی محبت موجودنہیں ، امریکیوں سے ملنے کے بعد کہا گیا کہ برف پگھل گئی ہے، چالیس منٹ میں تو کبھی مری میں گرنے والی برف نہیں پگھلی‘ پتہ نہیں شاہ محمود قریشی نے ستر سال سے گرنے والی اس برف کو کس آلے سے منٹوں میں پگھلا لیا،مذاکرات تو پتہ نہیں گرمجوشی سے ہوئے یا نہیں ‘پاکستانی وزیر خارجہ نے پریس بریفنگ میں بہت گرمجوشی دکھائی، اس پریس بریفنگ کے بعد واشنگٹن کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک اعلامیہ بھی جاری کیا، جس میں یہ بھی کہاگیا،،، امریکہ نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ خطے کے امن استحکام کیلئے پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کیخلاف مستقل اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔امید ہے ہمارے وزیر خارجہ نے اس اعلامیے کو بھی تحمل سے پڑھ لیا ہوگا،اصل بات یہ ہے کہ امریکہ خطے میں جو امن چاہ رہا ہے اس کیلئے کردار پاکستان نے نہیں بھارت نے ادا کرنا ہے جو دہشت گردوںکا اس وقت اصل پشت پناہ ہے، امریکی عہدیداروں کے ساتھ چالیس منٹ کے مذاکرات میں پاکستان نے بہت کچھ حاصل بھی کیا اور اس حصول کی وجہ بنا وزیر اعظم عمران خان کا پاکستانی لباس،، کرتہ شلوار میں مذاکرات کی میز پر عمران خان کا اعتماد بلا کاتھا، جو امریکی جرنیل کی وردی پربھی بھاری محسوس ہو رہا تھا اور مد مقابلوں کو مات دے رہا تھا، عمران خان نے امریکہ کو اپنی انانیت کا احساس دلایا،جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی میں ہونے والے ان مذاکرات کی کامیابی کاتناسب اور دوچار دن میں سامنے آ ہی جائے گا، اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی شرط بھارت سے ایشوز پر مذاکرات ہے اور اس سچائی کو قطعی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ بھارت بھی ہمارے ساتھ برابر کی سطح پر بات چیت کو تیار نہیں، وہ اپنی منوانا چاہتا ہے اور پاکستان اس کی بالا دستی قبول کرنے پر تیار ہے اور نہ کبھی تیار ہوگا، پاکستان کو سامراجیت سے نجات کا جو سنہری موقع ملا ہے‘ اسے گنوانا نہیں چاہئے، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا شاید یہ آخری موقع ہے،امریکہ اب ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات علیحدہ اور ملٹری تعلقات کی نوعیت ملٹری ٹو ملٹری بنیاد پر استوار کرنا چاہتا ہے اور یہی امریکہ کی پاکستان کیلئے نئی پالیسی ہے، وہ ہمارے ساتھ نیا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں، نئے رشتے استوار کرنے کی ضرورت وہیں محسوس کی جاتی ہے جہاں پہلے سے رشتے موجود نہ ہوں، شیشے میں دراڑ آجائے تو کبھی جڑتی نہیں، بقول ساحر لدھیانوی۔ ؎ تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا ایک خبر ٹوکیو سے ہے، جاپانی دارالحکومت کے اولڈ ہوم میں ایک جوڑے نے اپنی شادی کی80 ویں سالگرہ منائی، شوہر کی عمر ایک سو آٹھ سال اور بیوی کی سو سال ہے، دنیا کے اس معمر ترین جوڑے نے اس موقع پر ایک پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ تعلق کی طوالت کا آسان سا گُر یہ ہے کہ فریقین میں اعتبار اور اعتماد کا رشتہ برقرار رہے، جہاں شک پنجے گاڑھ لیتا ہے وہاں سارے تعلق سارے رشتے ملیا میٹ ہوجاتے ہیں۔ ٭٭٭٭ اب بات کرتے ہیں کہ تعلق کیا ہوتا ہے؟ اس موضوع پر آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔نام تھا اس کا پیارے اور وہ مجھے ملا تھاحیدر آباد جیل میں ، پیارے، رسول بخش پلیجو کی پارٹی کا فل ٹائم ورکر تھا اور سیکڑوں سیاسی کارکنوں کی طرح پابند سلاسل تھا، میں چودہ اگست1978ء کو مزار قائد اعظم سے رضاکارانہ طور پر گرفتار ہوا،مجھے کراچی پریس کلب کے قریب تھانے لے جایا گیا، چند گھنٹوں کی کارروائی کے بعد ملٹری کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں چھ ماہ قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی توپولیس سنٹرل جیل میں جمع کراآئی،۔دو ہفتوں بعد مجھے کچھ اور ساتھیوں سمیت حیدر آباد جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں موجود تھا ، پیارے،، حیدر آباد جیل میں ہمیں اس بیرک میں رکھا گیا جو فیض احمد فیض ، حبیب جالب، ولی خان اور دیگرباغیوں کے لئے بھٹو صاحب کے دور حکومت میں بنائی گئی تھی، اس وسیع وعریض بیرک میں سو کے قریب قیدی ایک ساتھ رہ سکتے تھے،بہت بڑا صحن تھا ، کئی درخت تھے، اس بیرک میں رسول بخش پلیجو اور فاضل راہو بھی بند تھے۔ سندھ کی تمام جیلیں بھی اس زمانے میں صحافیوں اور ان کے ہم سفروں سے بھری ہوئی تھیں، منہاج برنا اور نثار عثمانی سکھر جیل میںتھے،عبدالحمید چھاپرا سمیت کئی سینئرزہمارے ساتھ تھے،مارشل لا حکومت آزادی صحافت اور اخباری کارکنوں کے تحفظ روزگار کے حوالے سے ہمارے مطالبات ماننے اور ہم اپنی جدوجہد ترک کرنے پر تیار نہ تھے۔ دو عیدیں بھی اسی جیل میں گزریں۔ایک دن منہاج برنا صاحب کا پیغام ملا کہ کل تمام جیلوں میں قید ساتھی مطالبات تسلیم ہونے تک بھوک ہڑتال شروع کریں۔۔ہم نے پیغام پر لبیک کہتے ہوئے کھانا پینا بند کر دیا، ان دنوں جیل کے سپرنٹنڈنٹ جماعت اسلامی کے لیڈر جان محمد عباسی کے بھائی تھے، وفاقی وزارت اطلاعات بھی جماعت اسلامی کے پاس ہی تھی۔۔۔بھوک ہڑتال شروع ہو گئی۔جیل حکام نے سر توڑ کوششیں لیکن ہم سب سقراط بننے پر تلے ہوئے تھے، ہمارے نہلے پہ دہلا پھینکا ‘جیل سپرنٹنڈنٹ نے ملاقاتوں پر پابندی لگا کر،،ملاقاتی سگریٹ،صابون، بسکٹ اور پھل لایا کرتے تھے۔یہ راستہ بند کر دیاگیا ،مجھے بھوک مٹانے کا ایک نسخہ مل گیا، بیرک میں نمک پڑا تھا جو میںنے چھپا لیا۔۔ پیارے جس کا تعلق پلیجو کی پارٹی سے تھا، اس نے مشورہ دیاکہ تم درختوں کے پتے کھا لیا کرو،۔۔۔اس نے بتایا کہ یہاں امرود کے درخت بھی ہیں اور ان کے پتے ذائقے میں کڑوے نہیں۔۔۔ مجھے جینے کا ایک راستہ مل گیا۔۔ یہ بھوک ہڑتال انتیس دن تک چلی۔ اس کے بعد مارشل لاّء حکام نے ہماری مانگیں منظور کر لیں اور رہائیاں شروع ہو گئیں۔۔ میری رہائی کے دن میرے ساتھ کوئی اور رہا نہیں ہو رہا تھا ، پیارے کی رہائی کا پروانہ بھی نہیں آیا تھا۔ میں نے اس سے وعدہ لیا کہ رہائی کے بعد وہ میرے پاس لاہورآجائے گا۔ چند دن بعد پیارے رہا ہو کر میرے پاس چلا آیا، بند اخبارات و جرائد ہماری جدوجہد سے کھل تو گئے مگر کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایک دو مہینے گزر گئے تو مساوات کے کارکنوں کا ایک وفد بیگم نصرت بھٹو سے ملا، بیگم صاحبہ نے کہا کہ آپ لوگ فاروق لغاری کے پاس جائیں وہ تنخواہوں کی ادائیگی کر دیں گے۔ ہم لوگ لغاری سے ملنے چلے گئے، وہ بہت رعونت سے ملے اور فرمانے لگے، بیگم صاحبہ سے کہیںکہ اخبار ذوالفقار علی بھٹو کا ہے، میرا نہیں ان دنوں میں اچھرے والے گھر میں اکیلا رہ رہا تھا، پیارے کے آجانے سے رونق ہوگئی، وہ گھر کے سب کام کرتا، کھانا بھی پکا لیتا، دکانداروں سے ادھار بھی لے آتا، لہر میں ہوتا تو گانا بھی سنا دیتا۔ میں پیسوں کے لئے کبھی کبھی سرور سکھیرا صاحب کے پاپولر ماہنامہ دھنک کے لئے کوئی فیچر لکھ دیتا۔ لاہور سے ایک نئے اخبار کا اجراء ہو رہا تھا۔ میں بے شمار رکاوٹوں کو عبور کرکے پہلا شمارہ نکالنے والے کارکنوں میں شامل ہو گیا، پیارے میرے لباس، جوتوں ، صبح جلد جاگنے، سب چیزوں کا دھیان رکھتا۔ نئے اخبار میں ملازمت کے چار پانچ ماہ بعد۔ ایک رات۔اچانک آٹھ دس کمانڈو گھر میں گھس آئے، دو نے پیارے کو دبوچا اور میرے کمرے میں آ گئے۔۔ تمہارے خلاف ایک مقدمہ ہے ہمارے ساتھ چلو۔ گھر کے باہر چار پرائیویٹ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک میں مجھے بٹھایا گیا۔ پہلے سمن آباد تھانے گئے، وہاں کچھ لوگ گاڑیوں سے اتر گئے جو شاید پولیس اہلکار تھے، پھر تھانہ پرانی انار کلی پہنچے اور مجھے لاک اپ میں ڈال دیا۔ میرے کسی سوال کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا، لاک اپ میں کچھ لوگ سو رہے تھے ، کچھ جاگ رہے تھے، روٹی پانی بھی وہیں ،رفع حاجت بھی وہیں۔، مجھے سب مارشل لاّ ایڈ منسٹریٹر کی اسی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں تین سال پہلے کوڑوں کی سزا سنی تھی۔ تھانہ پرانی انار کلی کا ایک انسپکٹرمجھے ہتھکڑیاں پہنا کر یہاں لایا۔ ہم فوجی عدالت کے باہر کھڑے تھے۔ ایک اور پولیس افسر ہمارے قریب آیا، اور انسپکٹر کے ہاتھوں میں پکڑی میرے جرائم کی فہرست دیکھنے لگا، اس کی زبان سے نکلا۔ کیس تو بہت مضبوط ہے یہ نہیں بچے گا۔ میں نے بے ساختہ ان دستاویزات کو دیکھنے کی کوشش کی، میری نظر صرف۔ زیر دفعہ 302 تک پہنچی۔ مجھ پر ایک قتل ڈالا گیا تھا،، کہتے ہیں کہ تین سو دو کسی درخت پر بھی لگ جائے تو وہ سوکھ جاتا ہے، لیکن میں قطعی خوفزدہ نہ ہوا۔ میرا ریمانڈ ہوا اور پھر آنکھوں پر پٹی ڈال کر شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں پہنچا دیا گیا۔ پانچ ماہ بعد مجھے خطرناک قرار دے کر لال قلعہ کے زیر زمین عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔ لال قلعہ لاہور کے وارث روڈ پر لاہور کالج برائے خواتین کی دیواروں سے ملحق تھا ، کئی سال پہلے اسے مسمار کر دیا گیا تھا، اب پتہ نہیں وہاں کیا ہے؟۔ دو ماہ کے تشدد کے بعد مجھے پھر شاہی قلعہ واپس لایا گیا۔ بھلا ہو بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب کا جنہوں نے ہائی کورٹ سے میری ضمانت کرا لی۔ شاہی قلعے کی مغلیائی دیواروں سے آزاد ہوا تو توقع نہ تھی کہ باہر کوئی میرا منتظرہوگا۔ لیکن ایک نہیں دو آدمی میرے انتظار میں تھے۔ ایک پیارے اور دوسرا میرا بھائی ڈاکٹر اختر۔ ہم شاہی قلعہ سے باہر نکل رہے تھا، اچانک پیارے نے میرے ہاتھ میں کچھ روپے تھما دیے۔ پیارے کہاں سے آئے تمہارے پاس یہ روپے؟ ‘‘آپ قید ہو گئے تو میں نے رات کو پٹرول پمپوں پر رکشے دھونے شروع کر دیے، روٹی کھانے کے بعد جو بچتا جمع کر لیتا ، آپ واپس آئیں گے تو آپ کو ضرورت ہوگی پیسوں کی‘‘یہ تھا پیارے اور یہ ہوتا ہے تعلق۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ تعلق اور تعلقات دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔