اگر تعلیم صوبوں کی تحویل میں دے دی گئی تھی تو خدا کے واسطے صوبوں سے گذشتہ پانچ دس سالوں کی کارکردگی کی رپورٹ تو مانگیے..... کیا سارے صوبوں کے سارے شہروں اور دیہاتوں کے پرائمری سکولوں کا سروے کر کے ان کے اندر بہتری کی صورت پیدا کی گئی۔ نصاب کا جائزہ لیا گیا۔ عمارتیں ٹھیک کی گئیں۔ پینے کے پانی کا بندوبست ہوا۔ لیٹرین بنائے گئے۔ گھوسٹ سکولوں کا قلع قمع ہوا۔ لڑکیوں کے لئے نئے سکول بنائے گئے۔ یہ تو صرف پرائمری کی بات ہے۔ مڈل اور میٹرک تک کے سکولوں میں کیا بہتری آئی۔ کتنے نئے کمرے بنائے گئے۔ کھیل کے میدان کتنے ہیں۔ اساتذہ کی تعداد اور استعداد کس حد تک بڑھی___ سالانہ داخلوں اور رزلٹ کی شرح میں کتنے فیصد اضافہ ہوا۔ اگر تعلیم صوبوں کو دے دی گئی تھی تو پرائمری سے لے کر ہائرایجوکیشن تک کونسا انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ ہرصوبے میں یہی دیکھنے کو ملے گا کہ سرکاری سکولوں کی گرانٹ بھی مگرمچھوں کی جیب میں جاتی رہی۔ معدودے چند لوگ جو بعض صوبوں میں تعصب اور منافرت پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے تو قائداعظم‘ محترمہ فاطمہ جناح اور علامہ اقبال کی سوانح میٹرک کے نصاب سے نکال کر اپنے اپنے لیڈروں کے کارنامے اس میں شامل کر دئیے ہیں۔ ہماری نسل جو پاکستان کے اندر پیدا ہوئی۔ اور خالص پاکستانی سکولوں سے کسب فیض کر کے اس مقام کو پہنچی وہ یہ پوچھنے میں کہاں تک حق بجانب ہے کہ پاکستان بنتے ہی چاروں صوبوں کے لئے کم ازکم میٹرک تک نصاب یکساں کیوں نہ کر دیا گیا۔ ہم جب میٹرک کا امتحان دیا کرتے تھے تو سندھ یونیورسٹی سے کثیر تعداد میں طالبات میٹرک کا امتحان دینے پنجاب یونیورسٹی میں آیا کرتی تھیں۔ ان کی ٹیچرز کا خیال تھا کہ پنجاب کا نصاب اُردو میں ہے اور نسبتاً آسان ہے۔ ہمارے عصر کے تمام بڑے بڑے لوگ خواہ کسی بھی شعبے کی سربراہی کر رہے ہوں۔ انہوں نے سرکاری اُردو سکولوں سے میٹرک پاس کیا تھا۔ نہ کوئی کمپلیکس نہ کوئی مسئلہ___ وہ لوگ کیرئیر کی انتہا کو پہنچے۔ مگر دیکھتے دیکھتے ایک مفاد پرست ٹولہ اُبھرا اور اس نے ملک کے اندر اولیول اور اے لیول کا کوڑھ پھیلا دیا۔ کسی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ اس کی اوٹ میں پرائیویٹ انگلش سکولوں کا جال بچھا دیا گیا۔ جنہیں امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے ناموں سے منسوب کر کے مادرپدر آزاد ایک نئی نسل پیدا کرنے کا ٹھیکہ لے لیا گیا___ معصوم طالب علموں کو ائیرکنڈیشنڈ کمروں کی لت لگائی گئی۔ غیر ملکی نصاب پڑھایا گیا۔ غیر ملکی کلچر بچھایا گیا۔ اور فیس لاکھوں میں لی گئیں___ان کا نصاب کون چیک کرتا ہے۔ ان کے حساب پر کس کی نظر ہے۔ انہوں نے بڑے شہروں کی گنجان آبادیوں میں اپنے سکول کھول کر شہریوں کی زندگی جہنم کیوں بنا دی ہے؟سرکاری سکولوں کو اچھوت کا درجہ کس نے دیا؟ ان کا معیار اور حوصلہ گرتے گرتے زمین بوس ہوا۔آج ہمارے گھروں کے چھوٹے ملازمین بھی یہی کہتے ہیں۔ باجی سرکاری سکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی۔ ہم اپنے بچوں کو پرائیویٹ انگریزی سکول میں پڑھاتے ہیں۔ جہاں فیس ہزاروں میں ہے۔ رفتہ رفتہ یہی انگریزی سکول پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹی میں ڈھل جاتے رہے۔ ہر سڑک اور ہر کالونی کا سکون برباد ہونے لگا۔ ہو رہا ہے۔ اور گنگا جمنی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ اور ہائرایجوکیشن جس کا گراف اونچا جا رہا تھا اور دُنیا بھی تسلیم کر رہی تھی‘ صوبہ صوبہ کھیلنے میں بیچاری نہ کوووں میں رہی نہ موروں میں___ کوئی بھی سرکار ہو‘ آتے ہی حریفوں کے ساتھ ’’کوڈی کوڈی‘‘ کھیلنے لگتی ہے۔ ایک وفاقی وزیر تعلیم ہوتا تھا۔ جو تمام صوبائی معاملات پر نظر رکھتا تھا۔ کم ازکم اس تک سالانہ ترقیاتی یا تنزلیاتی رپورٹیں تو پہنچتی تھیں۔ صوبوں میں وزارتیں اہلیت پر نہیں دی جاتیں۔ ذات برادری سسٹم اور خوشامدانہ رویوں پر وزارتیں دی جاتی ہیں۔ صوبے میں وزیرتعلیم اکثر اُس شخص کو بنایا گیا جو میٹرک پاس بھی نہیں تھا۔ پاکستان ریلوے تباہ ہوئی کہ کسی بوالہوس کو اپنی بسیں چلانے کا جنون تھا۔ جمہوریت میں ہونگی صدہزار خوبیاں مگر اسکی برائیوں میں سرفہرست اقرباء پروری‘ کرپشن‘ رشوت‘ سفارش‘ اور چاپلوسی سکہ رائج الوقت ہیں..... آپکی بیوروکریسی ایک تماشائی ہے۔ تاہم بیوروکریسی میں بھی ذہین وفطین معاملہ فہم اور محب وطن لوگ ہوتے ہیں۔ جنہیں اکثر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے..... ہمارا آئین کہتا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان ’’اُردو ‘‘ہے۔ خیبر سے لے کر گوادر تک اُردو ہی پاکستان میں رابطے کی زبان ہے۔ مڈل ایسٹ اور دیگر کئی ممالک میں بولی جاتی ہے۔ یہ دُنیا کی چھٹی بڑی زبان ہے۔ مگر کسی بھی گھر میں جا کر دیکھ لیجئے‘ ہماری نئی نسل اپنے بچوں کے ساتھ انگریزی بولتی ہے۔ انگریزی ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ سائنسی علوم کی تدریس اور ترویج کے لئے اسکی افادیت اپنی جگہ مستحکم ہے۔ ہم انگریزی کے مخالف نہیں ہیں۔ مگر اُردو کی ناقدری پر رونا آتا ہے۔ جاپان‘ جرمنی‘ چین‘ روس‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ اور کئی ملکوں نے انگریزی غلامی کے بغیر ارتقا کی منازل طے کیں۔ یہ ایک اجمالی سا جائزہ ہے۔ ہمیں تعلیمی ترقی میں صوبائی حکومتوں کی دلچسپی‘ توجہ اور معرکتہ الاراء کامیابیوں سے آگاہ کیا جائے۔ ساری باتوں سے یہ تاثر نہ قائم کیا جائے کہ ہم بیک قلم انگریزی میڈیم یا انگریزی میڈیم تدریسی اداروں کے خلاف ہیں۔ تکلیف دہ احساس یہ ہے کہ اُردو میڈیم ہائی سکولوں کے ساتھ سوتیلی اُولاد والا سلوک کیوں کیا گیا۔ ابھی تک سربرآوردہ معروف وقابل فخر لوگ ان سکولوں بلکہ ٹاٹ والے سکولوں سے پڑھ کر آ رہے ہیں۔ اور بڑی بڑی مسندیں سنبھال رکھی ہیں۔ ایک شعبہء سیاحت بھی مرکز کے پاس ہوتا تھا۔ وہ بھی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بخش دیا گیا۔ صوبوں سے کہیے کہ سیاحت کے زمرے میں انہوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ذرا قوم کو بتائیں۔ انہوں نے کیا کرنا تھا۔ ایک وزیر سیاحت بنا دیا۔ اللہ اللہ خیر صلاً..... وزیر سیاحت نے سمجھا۔ سرکاری خرچے پر ساری دُنیا کی سیاحت کرنا میرا پیدائشی حق ٹھہرا۔ ہمارے بچپن میں‘ ہمارے ملک میں بہت سے غیر ملکی سیاح نظر آیا کرتے تھے۔ جنہیں ہم گورے کہتے تھے۔ ہمارے خفیہ دشمنوں نے ’’را‘‘ کے ایجنٹ بن کے جب پاکستان کے اندر ’’لاء اینڈ آرڈر‘‘ کی سیچوایشن غارت کر دی۔ تو سیاحوں نے ادھر کا رُخ کرنا بند کر دیا۔ دُنیا کے بہت سے ممالک ہیں جن کا روزگار اور زرمبادلہ صرف سیاحوں پر منحصر ہے۔ اس میں مسلم ملک مالدیپ اور غیر مسلم ملک تھائی لینڈ شامل ہیں۔ مالدیپ جزیروں کی صورت میں سمندر کے اندر بکھرا ہوا ملک ہے۔ مگر سیاحوں کی ٹولیوں سے بھرا رہتا ہے۔ اگر امن عامہ کی صورت کو ایک طرف رکھ کے ہم پاکستان کے نقشے پر ایک نظر ڈالیں۔ تو پاکستان کے چاروں صوبے‘ قدرتی حسن‘ قدرتی وسائل اور بہترین آب وہوا کے مظہر نظر آئیں گے۔ پہلے صوبہ بلوچستان کو لیجئے۔ اس صوبے کے اندر بلاشبہ ایسے مقامات اور مناظر ہیں۔ جنہیں بے اختیار جنت نظیر کہہ دینے کو دل چاہتا ہے۔ ایسی روح پرور کنواری وادیاں ہیں۔ جہاں ابھی انسانی قدم نہیں پہنچے۔ قدرتی جھیلیں ہیں۔ قدرتی چشمے ہیں۔ فلک بوس پہاڑ ہیں___ میلوں لمبے غار ہیں۔ اس خطے کو اس کے مقامی لوگوں نے ہمیشہ متنازعہ بنائے رکھا۔ کیا کسی بھی وزیر سیاحت کو اس بات کا خیال آیا کہ ان پانچ سالوں میں جو اسے ودیعت کئے گئے‘ ان علاقوں کو ڈیویلپ کرتا۔ وہاں ہوٹل اور موٹل بنواتا‘ نئی سڑکیں تعمیر کرتا‘ سیاحوں کے لئے سہولتیں مہیا کرتا۔ اور لاء اینڈ آرڈر پر سختی سے عمل درآمد کراتا۔ سیاحوں کو سیکورٹی مہیا کی جاتی۔ میںپانچ سال سیاحت کی سٹینڈنگ کمیٹی کی رکن رہی ہوں۔ اور ان علاقوں کی تصاویر دیکھ کر حیران ہوتی رہی ہوں۔ اگر ان قابل دید علاقوں کو ڈویلپ کر لیا جائے تو کوئی پاکستانی چھٹیاں گذارنے کسی دوسرے ملک میں نہ جائے___ کراچی میں سمندر ہے___ اور سندھ بلوچستان میں مکران اور مہران کے صحرا ہیں___ اگر صحراؤں میں رہائش کی سہولتیں ہوں تو سیاح جوق در جوق وہاں جاتے ہیں۔ وہاں کی دُنیا ہی الگ ہوتی۔ وہاں صبح وشام کا رنگ جدا ہوتا ہے۔ وہاں کی چاند راتیں بے مثال ہوتی ہیں۔ وہاں شکار کے جانور ہیں۔ وہاں قدرت بے حجاب نظر آتی ہے___ مگر وہاں کیا ہو رہا ہے۔ صوبائی حکومتیں بڑے شہروں کے فائیوسٹار ہوٹلوں میں جشنِ تمنا مناتی رہتی ہیں۔ اور صحرائی لوگ سرکنڈے کی جھگیوں میں بوند بوند پانی کو ترس کر مر جاتے ہیں۔ اور آپ بڑے فخر سے یہ مناظر میڈیا کے ذریعے ساری دُنیا کو دکھاتے ہیں۔ کون وہاں جائے گا آبلہ پائی کو___۔ پنجاب میںچولستان بھی ایک ایسا صحرا ہے۔ جس کی سرسبز زمینیں اہل اقتدار نے اپنے نام پر چڑھا دیں۔ اور رہائشیوں کو بے آباد زمینوں پر وسائل کے بغیر زندگی گذارنے کے لئے چھوڑ دیا۔ پنجاب میں ایک سرکاری محکمہ ہے۔ جس نے سیاحت کے لئے کچھ کام کئے ہیں۔ یعنی "PTDC" اس نے پہاڑی علاقوں میں ہوٹل بھی بنائے ہیں۔ مگر ابھی بہت سے علاقوں تک اسکی پہنچ نہیں ہو پائی۔ خیبرپختونخواہ کے علاقہ جات میں اور اس سے آگے سیاحت کے لئے کیا کچھ ہوا..... اس کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ یہ جائزہ تو خود پختونخوا کے وزیر سیاحت کو جانے سے پہلے پیش کرنا چاہیے؟ (جاری ہے)