مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر پنجاب حکومت نے نیب لاہور کی درخواست پر دفتر کے اردگرد والے علاقے کو ریڈزون قرار دے دیا ہے۔ نیب لاہور کی طرف سے صوبائی حکومت کو پیش کی گئی درخواست پر نیب کمیٹی برائے امن و امان نے 25 اور 26 مارچ کو رینجرز اور پولیس کے دستے نیب آفس کے گردونواح میں تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ کا کہنا ہے کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ نیب بدعنوانی کے خلاف تحقیقات کرنے والا ادارہ ہے۔ یہ قانون نافذ کرنے والی مسلح فورس نہیں اس لیے بعض طاقتور حلقوں اور شخصیات کی طرف طاقت کے زور پر اس کے کام پر اثر انداز ہونے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ 11 اگست 2020ء کو نیب لاہور نے جاتی عمرہ میں پندرہ ہزار کنال اراضی اور چوہدری شوگر مل کیس کے حوالے سے مریم نواز کو پیشی کے لیے بلایا تاہم ان کے وہاں پہنچنے پر ن لیگ کے کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا جس کے دوران نون لیگی کارکنوں نے پولیس اور نیب آفس پر پتھر برسائے ۔ نیب نے ہنگامہ آرائی کے بعد مریم نواز کی پیشی مؤخر کر دی تھی ۔ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے دعویٰ کیا کہ نیب کے دفتر اور پولیس پر نواز لیگ کے کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا اور جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں پتھر لائے گئے۔ان گاڑیوں کی نشاندہی بعد ازاں مختلف چینلز پر نشر فوٹیج سے ہوئی۔اس ہنگامہ آرائی میں چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ہنگامہ آرائی کے بعد ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ انھیں پیشی پر ’نقصان پہنچانے کے لیے بلایا گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے ذریعے انھیں واضح طور پر جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے الزام لگایا کہ نواز لیگ نے ایک ’سوچی سمجھی سکیم‘ کے تحت مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقعے پر پنجاب بھر سے کارکنان کو اکٹھا کیا۔اس بار بھی ایسی سوچی سمجھی سکیم رو بہ عمل دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ اور پی ڈی ایم رہنما ہزاروں کارکنوں کے ساتھ مریم کی پیشی کی بات کر رہے ہیں۔اس سے نیب کے خدشات بے بنیاد نہیں رہے ۔یہ وہ پس منظر ہے جس نے نیب کو رینجرز کی مدد لینے پر مجبور کیا۔قانونی تفتیش اور جوابدہی کے عمل کو کس طرح الجھایا جا سکتا ہے اس کا ثبوت عدالت میں مریم نواز کی اپنی ممکنہ گرفتاری روکنے کی درخواست دائر کرنا ہے ،ایک طرف نیب پر ساتھیوں سمیت چڑھائی اور دوسری طرف عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت ظاہر کرتی ہے کہ مسلم لیگ نون اداروں کو متنازع بنانے اور انتشار کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے۔ سیاسی رہنما عوام کے لیے ایک مثال ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ عشروں سے طاقتوروں کے شکنجے میں ہے۔ یہاں سماجی انصاف نہیں‘ اقربا پروری ہے‘ دوست نوازی ہے‘ رشوت اور سفارش عام ہے۔ یہ سب محروم اور پسماندہ طبقات کے مسائل میں اضافے کی وجہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ایسے کتنے ہی واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں جب کسی طاقتور خصوصاً سیاسی رہنما نے قانون کو پائوں تلے روند ڈالا۔ میاں نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت جاری تھی‘ ان کا دور اقتدار تھا۔ مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین اسمبلی سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ سپریم کورٹ پر حملہ آور ہو گئے۔ یہ واقعہ تاریخ میں محفوظ ہے لیکن آج تک اس کے ذمہ داران نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا‘ اگرچہ چند افراد کو نااہلی کی سزا ہوئی۔ کراچی میں ایک دولتمند خاندان کے بگڑے نوجوان شاہ رخ جتوئی نے ایک نیک سیرت بھائی کو اس وقت قتل کردیا جب اس نے اپنی بہن کو چھیڑنے سے منع کیا۔ سیاسی اثر و رسوخ اور دولت نے مجرم کو بچا لیا۔ بلوچستان کا رکن اسمبلی دن دہاڑے ایک ٹریفک اہلکار کو گاڑی تلے کچل دیتا ہے لیکن قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے بچا لیا جاتا ہے۔ لاہور میں چودہ افراد حکومت اور اس کے آلہ کار پولیس افسران کے ہاتھوں قتل ہو گئے‘ مظلوم آج تک انصاف کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور کے لیے قانون ہمیشہ موم کی ناک رہا ہے جبکہ معمولی جرائم کا ارتکاب کرنے والے عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ مریم نوار اور ان کی جماعت اگر سمجھتی ہے کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی بنیاد پر بنائے گئے ہیں تو انہیں اپنے اوپر الزامات کا قانونی انداز میں دفاع کرنا چاہیے۔ پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں‘ ان کے والد کے دور اقتدار میں بے نظیر بھٹو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر عدالتوں اور جیلوں کے چکر لگایا کرتی تھیں۔ قانون پر عملداری جب تک بالائی سطح پر دکھائی نہیں دے گی نچلی سطح پر قانون شکنی کا سدباب نہیں ہو سکتا۔ بظاہر لندن میں مقیم مسلم لیگی قیادت ملک میں انتشار اور عدم استحکام کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔ میاں نوازشریف جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہ خوش کن نہیں۔ ان حالات میں اپوزیشن رہنمائوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلم لیگی رہنما کو درست راستہ دکھائیں۔ دوسری صورت میں قانون موجود ہے‘ اداروں پر حملہ آور ہونے والا کوئی بھی ہو اسے قانون کا احترام سکھانا ضروری ہو گا تاکہ ملک سیاسی قوتوں کا میدان جنگ بننے کی بجائے پرامن جمہوری و اقتصادی ترقی سے ہمکنار ہو سکے۔