چند باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر گفتگو کرنا میں مصلحت دینی کے منافی سمجھتا ہوں اور خاموش رہتا ہوں اگرچہ دل میں یہ خلش بھی باقی رہتی ہے کہ کہیں یہ خاموشی مجرمانہ نوعیت کی تو نہیں۔ مثال کے طور پر اپنے بھائی اوریا مقبول جان کے بہت سے دعاوی کے بارے میں صمیم قلب سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ ان میں اختلاف کی گنجائش ہے، تاہم چپ اس لیے رہتا ہوں مبادا اس سے دشمنان دین فائدہ اٹھانے بیٹھ جائیں۔ تاہم ذاتی گفتگوئوں میں اس کا اظہار کر دیتا ہوں اور اس سے وہ بھی واقف ہیں۔ مثال کے طور پر سود کے بارے میں ان کے موقف سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا، تاہم اس حوالے سے عالم اسلام میں جو بحثیں ہوتی ہیں، اس سے بے خبری بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ معاملہ سود سے انکار کا نہیں، اس کی تعریف اور اس کے تعین کا ہے۔ بعض اوقات اس بارے میں بڑے بنیادی سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہی دیکھئے یہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے کہ مفتی تقی عثمانی اور ان کے ہم خیال علما جو اسلامی بینکاری کی پشت پناہی کر رہے ہیں، ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ مفتی صاحب لوگوں کو حرام کھانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ استغفراللہ، میرے لیے یہ سوچنا بھی مشکل ہے، ایسے میں عام مسلمان کیا کرے۔ کیا علماء کے اس فتوے پر عمل کرے یا پھر اس کے لیے دوسرا راستہ کیا ہے۔ جب میں اس سوال کو اس کے منطقی انجام تک لے جاتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پہلے ایک مثالی معاشرہ (کسی گائوں یا شہر کی شکل میں) تشکیل دیا جائے اور وہاں سے ابتدا کی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، دوسرا کوئی راستہ آسان نہیں ہے۔ مقصد صرف سود ختم کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعے ایک ایسا معاشی نظام پیدا کرنا ہے جس کا مقصد مسلمانوں اور انسانیت کی فلاح ہو۔ اس سوال سے سب سے پہلا سامنا برصغیر کے مسلمانوں کو تب ہوا جب یہاں انگریز آیا۔ شاہ عبدالعزیز کے اس فتوے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جس میں برصغیر کو دارالحرب قرار دیا گیا۔ اس کا صرف سیاسی مطلب نہ تھا، بلکہ اس کے اقتصادی معانی بھی تھے۔ دارالحرب میں سود وغیرہ کی حرمت کے بارے میں دوسرے احکام ہیں۔ کیوں ہیں، اس لیے کہ دین کو مسلمانوں کا مفاد بھی عزیز ہے۔ یہ پوری تاریخ ہے جس سے یہ امت گزری ہے اور آج بھی گزر رہی ہے۔ میں مفتی نہیں ہوں مگر بعض اوقات شک ہوتا ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر ابھی تک دارالحرب بھی ہے۔ میں ہر قسم کے سود سے ہر تعلق توڑ لینا چاہتا ہوں مگر کیا کروں کہ اس دنیا میں جینا بھی ہے۔ دنیا میں معیشت کی بنیاد ڈالر پر ہے اور ڈالر ایک ایسی کرنسی ہے جسے امریکہ کی حکومت نہیں چھاپتی بلکہ ایک آزاد ادارہ چھاپتا ہے اور امریکی حکومت کو سود پر دیتا ہے۔ امریکہ کے دو صدر اس لیے قتل کردیئے گئے کہ وہ ڈالر چھاپنے والے ادارے فیڈرل ریزرو کو قومی ملکیت میں لینا چاہتے تھے۔ اب میں کیا کروں۔ ڈالر کے اس نظام کی پشت پر کس کی حمایت ہے۔ پیٹرو ڈالر ہوتا کیا ہے؟ یہ تیل کی ڈالر میں خریدوفروخت کا معاہدہ کس نے کر رکھا ہے۔ میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ عام مسلمانوں کو مشکل میں نہ ڈالیے، ان کے لیے اگر کوئی ’’حیلہ‘‘ تراشا جاتا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اس کی گنجائش ہے یا نہیں۔ مسائل کا حل نکالنا عوام کا کام نہیں، یہ اہل فکر و دانش یا حکومتوں کا کام ہے۔ بینک سرکاری تحویل میں تھے، تب یہ بات بڑی سہولت کے ساتھ کہی جاتی تھی کہ سرکار رعایا کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکتی۔ میں تو برسوں سے یہ سوال پوچھتا آ رہا ہوں کہ دنیا بھر میں اسلامی بینکاری پر جو کام ہو رہا ہے اس کی کوئی واضح شکل نکالی جائے۔ یہاں اس خیال پر ہی اٹکے ہوئے ہیں کہ بینکوں کو ہم قرضہ دیتے ہیں یا وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں منافع کو سود کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ سوچ پوچھئے تو یہ بحثیں، ایک نئے اقتصادی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہیں اور وہ ظاہری لیپا پوتی سے بہت آگے کی بات ہے۔ اس معاملے میں کوئی نظام درہم و دینار بھی جواب نہیں ہے۔ اوہ میں کدھر نکل گیا۔ اصل بات تو مجھے دوسری کرنا تھی۔ یہ تو اور سوال اٹھ کھڑے ہوئے شاید اس سے پتا چلے کہ ہمیں کیسے کیسے سوالات کا سامنا ہے۔ مسلمان اہل فکر و دانش نے ماضی میں بھی اہم مسائل پر بہت کام کیا ہے، ان سے نظریں نہیں چرائیں۔ اصل میں میرے ذہن میں جو تازہ سوال پیدا ہوا ہے، وہ اس کالم کے حوالے سے ہے جو میرے بھائی نے نیوزی لینڈ کے سانحے کے بارے میں لکھا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ مجرم وہ مسلمان ہیں جو غیر ممالک میں جا کر آباد ہو جاتے ہیں۔ اس پر ظفراقبال سے لے کر افتخار عارف تک کے اشعار یاد آتے ہیں۔ درست یہ لوگ رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ اب ان کو مجرم اور گناہگار ٹھہراتے ہوئے مجھے ذرا ڈر لگ رہا ہے۔ میرا بھائی تو بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں سے ناراض ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کیوں مسلمانوں کے لیے وطن میں ہجرت نہ کی، میں کہ مولانا وحیدالدین احمد کی تحریروں سے اور حال ہی میں حسین احمد مدنی کے پوتے اسعد مدنی کی ایک ٹی وی پروگرام کو سن کر بہت رنجیدہ ہوں۔ شاید اوریا سے کہیں زیادہ دکھ میں ہوں، مگر میں بھارتی مسلمانوں کو یہ کہہ کر ان کے حال پر نہیں چھوڑ سکتا کہ تم مشرکوں کے دیس میں رہتے کیوں ہو۔ جو لوگ حضرت عمرؓ کے زمانے میں برصغیر میں آئے تھے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے، وہ نہ تو شاید سیروسیاحت کے لیے آئے تھے نہ محض تبلیغ دین کے لیے نہ غیرسرزمینوں کو فتح کرنے۔ میں دینی حوالوں سے اس پر بحث ہی نہیں کرنا چاہتا، صرف عقل سلیم کو آواز دے رہا ہوں۔ یہ موقف تو صرف ہندوئوں کا رہا ہے کہ وہ سمندر پار سفر ہی نہ کرتے تھے۔ ایک عرصے تک ان کی ترقی و توسیع میں یہ ایک دیوار حائل رہی ہے۔ اس دھرتی پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی مگر کبھی یہ علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ نہیں رہا، عملی طور پر یہ غیر مسلمانوں کا ملک تھا۔ آیات قرآنی اور احادیث نبویؐ کو ان کے درست تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ ہم بار بار غزوہ ہند کا حوالہ دیتے ہیں جب کہ کہنے والے کہتے ہیں غزوہ ہند تو صدیوں پہلے ہو چکا جب ہم نے اس سرزمین پر اپنی فوجوں کے ساتھ قدم رکھا تھا۔ ویسے اگر یہ حدیث درست ہے بھی تو اس کے کہاں یہ معنی ہیں کہ پاکستان نام کا ایک ملک بھارت پر حملہ کر کے فتح یاب ہوگا۔ اس وقت تو ہند میں پاکستان بھی شامل تھا۔ بھارت میں لوگ ایک دوسری روایت سے ایک دوسرا مطلب لیتے ہیں کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کو بھارت سے ٹھنڈی ہواآتی تھی۔ علامہ اقبال نے مسیحیت اور مہدویت کے بارے میں حدیثوں کو عجمی تخیلات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ابن خلدون کے حوالے سے لکھا ہے یہ حدیثیں کمزور ہیں۔ پھر اس حوالے سے بھی شیعہ اور سنی تصورات میں بڑا فرق ہے۔ حضور سے تو یہ بات بھی منسوب ہے کہ انہیں گمان ہوا کہ دجال کہیں ان کے زمانے میں نہ آ جائے۔ ہمارے ہاں علماء نے یہ بحث بھی کی ہے کہ ہم نے قرآن کی تفسیر میں اسرائیلیات کو بے محابا داخل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کے خاتمے کے بارے میں یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے تصورات پر شاید کو ٹی وی پروگراموں کے لیے ایسا مواد مل جاتا ہے جو تینوں مذاہب میں ملتا جلتا ہوتا ہے۔ دوسری طرف میرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مفتی ولی رازی جیسا مستند عالم دین یہ سب باتیں اپنے مضامین میں پہلے بیان کر چکا ہوتا ہے۔ اس پر علمی بحث میرا مقام نہیں ہے، تاہم یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس سارے مواد کو بڑی احتیاط سے پرکھنا ہوگا۔ ہوتا یہ ہے کہ جب طالبان اٹھتے ہیں تو ہمیں وہ حدیثیں مل جاتی ہیں جن میں خراسان سے کالی پگڑی والوں کی آمد کا ذکر ہوتا ہے اور جب عراق اور شام میں ابوبکر بغدادی کی خلافت قائم ہوتی ہے تو اس حوالے سے حدیثیں دستیاب ہوتی ہیں۔ ایک روایت میں دمشق کی جامع مسجد کے مینار کے پاس امام مہدی کی آمد کا ذکر پڑھا تھا، کسی نے کہا تحقیق کرلیجئے یہ بنی امیہ کا زمانہ ہوگا، ورنہ عباسی دور ہوتا تو بغداد کی مسجد کا ذکر ہوتا۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ ہمیں ہر لحاظ سے احتیاط کرنا چاہیے۔ قرآن کو بھی سمجھنے کے لیے بہت اصول بیان کئے گئے ہیں۔ میرے جیسوں کے لیے تو شاہ ولی اللہ کی فوزالکبیر ہی کافی ہے۔ خدا کے لیے دین کے نام پر مسلمانوں کو مشکل میں نہ ڈالیے۔ میں کوئی عالم دین نہیں ہوں، مگر ایک گناہ گار مسلمان کی طرح دین کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ توفیق الٰہی سے جو تھوڑی بہت بصیرت حاصل ہوتی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اپنے ساتھیوں کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو مشکل میں نہ ڈالیے۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کیجئے۔ خوبصورت سپنے یا خوفناک خواب جو مسلمانوں کی قوت ارادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، ان پر زیادہ تدبر اور احتیاط کے ساتھ سوچ بچار کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر خوامخواہ کا ایسا احساس جرم پیدا نہیں ہونا چاہیے جو ان کے جذبہ عمل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ مجھے یقین ہے کہ قرآن اور اسلام کا ہر حکم امت کی بہتری کے لیے ہے، ان کی خواہمخواہ آزمائش کے لیے نہیں۔ ایسی آزمائش جس کا دین کو کوئی فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہو۔ مجھے یقین ہے کہ منشائے الٰہی میں اس کا خاص طور پر اہتمام رکھا گیا ہو گا کہ دین پر عمل کر کے مسلمان دنیا میں غالب رہیں نہ کہ مغلوب ہوں۔