آج معاشرہ ایک شخص یعنی عمران خان کی محبت تو دوسری طرف ان کی نفرت کے شدید جذبات میں گرفتار ،ہیجانی کیفیت کا شکا ر نظر آتاہے۔ دوست ہوں یا دشمن، یہ حقیقت مگر سب مانتے ہیں کہ عمران خان ہیں تو پی ٹی آئی ہے۔ اسی حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے کچھ عناصر اگر یہ سوچیں تو غلط نہ ہو گا کہ عمران خان کو منظر سے ہٹا دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود قصہ پارینہ بن جائیں گے بلکہ ان کی پارٹی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا ۔دوسری جانب خان صاحب کی سلامتی کولاحق خطرات کی بابت ان کے حامیوں کا شدید جذباتی رد عمل بھی اسی بناء پر قابلِ فہم ہونا چاہیئے۔ خان صاحب کی بے پناہ مقبولیت کو پہلے’ فین کلب‘ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ پھر ’کلٹ فالوئونگ‘ کہا جانے لگا۔جبکہ حال ہی میں انہیں ’فتنہ‘ ڈیکلیئرکر دیا گیا ہے۔ خود مریم نواز اور غالباََ انہی کے ایماء پر حکومتی وزراء کی جانب سے خان صاحب کو میڈیا پر’فتنہ‘ قرار دیئے جانے کی منظم مہم شروع کئے جانے کے بعد ’فتنے کا سر کچل دینے‘ جیسی باتیں ہونے لگیں۔اِسی دوران جب کہ خان صاحب کی تقریروں سے جملے چن چن کرسوشل میڈیا پر ان کے خلاف ’توہینِ مذہب‘ جیسے الزامات پھیلائے جانے کی شعوری کوشش جاری تھی تو عمران خان اپنی سلامتی کے حوالے سے خدشات کا تواتر سے اظہار کرنے لگے۔ متعین انداز میں اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر انہوں نے ستمبر کے آخری ہفتے میںایک عوامی جلسے کے دوران اس اچانک مہم کے ردعمل میں کیا جس کا آغازبظاہران کی بڑی حریف سیاسی جماعت کی سنیئر قیادت کے ایماء پر’لندن گروپ‘ سے وابستہ ایک وفاقی وزیر نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے کیا اور جس کی ڈھکے چھپے لفظوں میں تائیداُن کی رہنماء نے عدالت کے باہر میڈیا ٹاک میں کی۔مذکورہ پریس کانفرنس پر کافی لے دے ہوئی،تاہم متین حلقوں کی جانب سے حوصلہ شکنی کے باوجود عمران خان سے منسوب’توہینِ مذہب‘ کے مبینہ مواد پر مبنی کئی آڈیو اور ویڈیو کلپس وائرل ہو گئے یا کر دیئے گئے۔چنانچہ جب عمران خان نے الزام لگایا کہ’ چند افراد‘ توہینِ مذہب کے نام پران کی جان لینے کی پلاننگ کر رہے ہیں تواُن کے خدشات اس لئے قطعی طور پر بے بنیاد قرار نہیں دیئے جا سکتے کہ ہمارے ایک سابق گورنر کی عبرت ناک مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ ’فتنہ‘ کی ترکیب ہمارے ہاں ایک خاص مذہبی پس منظر میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ خان صاحب کو ’فتنہ‘ قرار دیئے جانے کی حکومتی مہم کواگر ’توہینِ مذہب‘ جیسے سنگین الزامات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو وہی خوفناک منظر نامہ ابھرکر سامنے آتا ہے،وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں جس کی ہم نے محض ایک جھلک دیکھی ہے۔ لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کی طرف سے مسلسل یقین دہانی اور اصرار کے باوجود کہ مارچ اور اس کے نتیجے میں جلوس یا دھرنا پر امن اور آئینی حدود کے اندر ہو گا، ایک منظم مہم کے تحت حکومت ،اس کے طرفدار میڈیا اور مخصوص عناصر کی جانب سے اسے’ خونی مارچ‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی والے حکومت کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں، بشمول عمران خان پر حملے کے خدشات کا اظہار کرتے رہے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وزیرآباد میں خان صاحب کے کنٹینر پر حملہ ہو گیا۔ خان صاحب سمیت ان کے کچھ ساتھی زخمی ہوئے ہیں،بد قسمتی سے ایک کارکن کی جان گئی ، تاہم ملک ایک بڑے اندوہناک سانحے سے محفوظ رہا ہے۔ مبینہ حملہ آور کو موقع پر پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ابھی قوم کے اوسان بحال نہیں ہوئے تھے کہ حیران کن طور پر تھوڑی ہی دیر میں ملزم کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آجاتی ہے کہ جس میں وہ یہ ’اعتراف‘کر تا ہوا نظر آتا ہے کہ’ اس نے عمران خان کو اس لئے ’مار ڈالا ،کیونکہ اس کے مارچ میں اذان کے وقت گانے بجائے جاتے تھے‘۔ ویڈیو بیان کے منظر عام پر آتے ہی وزیرِ داخلہ نے پریس کانفرنس اور وزیر دفاع نے قومی اسمبلی کے فورم پرکھڑے ہو کر خان صاحب کی تقریروں سے چنے گئے مخصوص جملوں کا حوالہ دینا شروع کر دیا۔ ملزم کی پراسرار طور پر ریلیز ہوجانے والی اعترافی ویڈیو کو بنیاد بنا کردونوں وزراء نے واقعے کو محض ایک فرد کی ’مذہبی جنونیت‘ قرار دے دیا۔دیکھا جائے تو خان صاحب کے یہ خدشات درست ثابت ہوئے کہ ان پر جان لیوا حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ہفتوں پہلے کیا گیا یہ دعویٰ بھی واقعاتی طور پر درست ثابت ہوا کہ ان کے قتل کو کسی مذہبی جنونی کا ذاتی فعل قرار دے کر جان چھڑا لی جائے گی۔تاہم خان صاحب کے اس الزام کا متعین جواب کہ ان پر حملے کی سازش حکومتی سطح پر کی گئی، آناابھی باقی ہے۔ایسا مگر سنجیدہ تحقیقات سے ہی ممکن ہے۔ آزاد اور شفاف تحقیقات کس حد تک ممکن ہیں، اس کاجواب تو آنے والے دنوں میں ہی ملے گاتاہم اس باب میں پنجاب پولیس کی جانب سے ملزم کی پہلی اعترافی ویڈیوریلیز کئے جانے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا اظہارِ ناراضگی اور اس کے نتیجے میں متعلقہ تھانے کے عملے کی معطلی کے باوجود ملزم کی مزید ویڈیو ز کا منظر عام پر آنا ظاہر کرتا ہے کہ شفاف تحقیقات کا عمل اس قدر آسان نہیں ہو گا۔معاملات کی ڈور ضرور کہیں اور سے بھی ہلائی جا رہی ہے۔ چنانچہ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ پنجاب میں خان صاحب کی حکومت ہے۔ مذکورہ افسوسناک واقعے میں ہم سب کے لئے جو سبق پوشیدہ ہے وہ’ توہینِ مذہب‘ کے الزام کی حساسیت ہے۔ سیاستدانوں کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیئے اورایک دوسرے پر لاکھ تہمتوں کے باوجود کم از کم مذہبی نوعیت کے الزامات سے پرہیزبرتنا چاہیئے۔اپنی سیاست کو مذہبی نظریات پر استوار کرنا کسی بھی سیاسی رہنماء کا جمہوری حق ہے۔تاہم مخالفین کی ’توہین مذہب‘ کے نام پر بیخ کنی ایک قطعی طور پر مختلف امر ہے۔ خان صاحب پر خطرناک قاتلانہ حملہ کیا گیاہے۔ خان صاحب کو حق حاصل ہے کہ اس باب میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کریں۔ تاہم کسی متعین نامزدگی سے پہلے ضروری ہے کہ ٹھوس شواہد دستیا ب ہوں۔ پشاور اور لاہور میں جو مناظر دیکھنے اور سڑکوں پر جو نعرے سننے کو ملے وہ ہم جیسوں کوعمر کے اس حصے میں افسردہ کر دینے کے لئے کافی ہیں۔ لازم ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔دوسری طرف کسی ایک فرد، بیانیے یا تحریک کو ’فتنہ‘ قرار دے کر اس کی سرکوبی نہیں، سیاسی رہنمائوں کا عام انتخابات کے انعقاد اور ان کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے مذاکرات کی میز پربیٹھنا وقت کی ضرورت ہے ۔ درپیش ہیجانی صورتحال سے نکلنے کا کوئی اور راستہ ہمیں تو سجھائی نہیں دیتا۔