آج 2 جنوری ہے ۔ مَیں تو چاہتا تھا کہ آج صرف 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب پر کالم لکھتا ۔ جس میں ’’فیلڈ مارشل ‘‘ صدر محمد ایوب خان نے پاکستان کے ہر عاقل و بالغ شہری کو ووٹ کے حق سے محروم کر کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزار منتخب ارکانِ بنیادی جمہوریت کو ووٹ کا حق دِیا تھا ۔قائداعظمؒ کی ہمشیرہ اور متحدہ اپوزیشن کی امیدوار ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ہرا کر صدر منتخب ہو کر اُنہوں نے دُنیا بھر میں رسوائی حاصل کر لی تھی لیکن ، کل (یکم جنوری کو ) مجھے اپنے موبائل پر ایک "Video Film" موصول ہُوئی جس میں سابق صدر آصف زرداری کے والد اور بلاول بھٹو زرداری کے دادا حاکم علی زرداری کسی غیر ملکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے قائداعظم ؒ اور اُن کے عظیم والد ِ (مرحوم ) جناح پونجا کے خلاف زبان درازی ، ہذیان گوئی ، دریدہ دہنی ، الزام تراشی، بہتان، تہمت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے خُود کے لئے بدنامی اور رُسوائی حاصل کر رہے تھے ؟۔ معزز قارئین!۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ، آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دے کر اپنے لئے الگ وطن پاکستان حاصل کِیا تھا۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ’’راشڑیہ سیویم سیوک سنگھ ‘‘(RSS) اور اُس کی ذیلی دہشت گرد تنظیموں اور سِکھوں نے 15 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا اور 80 ہزار سے زیادہ مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ’’ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو اتنی زیادہ مصیبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مشرقی پنجاب (موجودہ بھارتی پنجاب) میں ہندوئوں اور سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی۔ سِکھوں کی ریاستوں نابھہؔ ، پٹیالہؔ اور ضلع امرتسرؔمیں میرے خاندان کے 26 افراد شہید ہُوئے تھے ۔ میرے والد صاحب تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان آل انڈیا مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کو ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑنے کے لئے ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔ مَیں ’’ لٹھ باز‘‘ تو نہیں ہُوں لیکن، مَیں نے جب سے (1960 ء سے ) مسلکِ صحافت اختیار کِیا ہے ، تحریکِ پاکستان کے دشمن ہندوئوں ، سِکھوں اور ہندوئوں کی متعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو ؔ ۔ شری موہن داس کرم چند گاندھیؔ کے چرنوں میں بیٹھ کر قائداعظمؒ اور علاّمہ اقبالؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ دینے والے ’’ جمعیت عُلمائے ہند‘‘کے کانگریسی مولویوں کی باقیات کے خلاف ’’ قلم بازی‘‘ ضرور کرتا رہتا ہُوں۔ معزز قارئین!۔ "Video Film" میں آنجہانی حاکم علی زرداری نے قائداعظمؒ اور اُن کے والدِ محترم کے بارے میں تہمت لگائی ہے مَیں اُسے اپنے کالم میں شامل نہیں کرسکتا لیکن، ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’چاند پر خاک ڈالو ، اپنے منہ پر ہی آ جائے‘‘۔ (یعنی۔ اگر کسی نیک شخص پر تہمت لگائی جائے تو ،تہمت لگانے والا ہی بدنام ہوجاتا ہے ) ایسے لوگوں کی طرف سے استاد شاعر میرؔ درد نے کہا تھا … تہمتیں، چند اپنے ذمے، دَھر چلے! کِس لئے آئے تھے اور کیا کر چلے؟ …O… مَیں حیران ہُوں کہ حاکم علی زرداری کے والد محمد حسن زرداری اور اُن کی عراقی والدہ نے ، اپنے بیٹے کا کیا خوبصورت نام رکھا تھا؟۔ ’’ حاکم علی‘‘ لیکن، ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ نام ہیراؔ لیکن دمک کنکر سی بھی نہیں؟‘‘۔ اُستاد شاعر منیرؔ لکھنوی کہتے ہیں کہ … نقشِ نگین مہر، مرا نقشِ آب ہے! پیدا ہُوا ہُوں ، نام ڈبونے کے واسطے! …O… مَیں نے " Wikipedia" میں دیکھا کہ ’’ حاکم علی زرداری نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف مادرِ ’’مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت کی تھی ‘‘ تو ، کیا وہ دِکھاوا تھا ؟ ۔ پھر قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور اُن کے والدِ (مرحوم ) کے خلاف ہرزہ سرائی کیا معنی ؟ ۔ اب سُنیے جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں۔ پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سِکندر مرز ا نے 7 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کِیا تو، بھٹو صاحب اُس مارشلائی کابینہ میں شامل تھے ۔ اپنے "Boss" کے نام لِکھا ہُوا بھٹو صاحب کا یہ خط "On Record" ہے کہ ’’جنابِ صدر !۔ آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘ ۔ 27 اکتوبر کو آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف / جلا وطن کر کے لندن بھجوا دِیا تو، بھٹو صاحب اُن کی کابینہ میں بھی شامل تھے اور جب تک رہے اُنہیں "Daddy" بنائے رکھا ؟ ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوسری بار وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کِیا گیا تو، جون 1997ء میں ( امن کی آشا کے علمبردار) کراچی کے روزنامہ میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں حاکم علی زرداری نے کہا تھا کہ ’’ مَیں آصف زرداری کو سیاست میں نہیں لانا چاہتا تھا لیکن، میری عدم موجودگی میں بے نظیر بھٹو نے اُسے نواب شاہ سے الیکشن میں کھڑا کر کے سیاست میں گھسیٹ لِیا ، حالانکہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شادی کے معاہدے میں یہ شامل نہیں تھا۔ اپنے اُس انٹرویو میں حاکم علی زرداری نے یہ بھی کہا تھا کہ’’ مولانا حسرت موہانی ، قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر تھے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب تک زندہ رہیں اُنہوں نے اپنے ’’ شوہرِ نامدار‘‘ کو اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ اُن کے قتل کے بعد ، آصف زرداری نے اُن کی ’’مبینہ ‘‘ وصیت کے مطابق اپنے بیٹے بلاول زرداری کو بھٹو ؔکا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت شریک چیئرپرسن کا عہدہ سنبھال لِیا۔ پھر نان گریجوایٹ آصف زرداری 9 ستمبر 2008 ء سے 8 ستمبر 2013ء صدرِ پاکستان رہے اور اِس دَوران اُنہوں نے اپنی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ کو ’’ مادرِ ملّت ثانی‘‘ مشہور کرنے کی کوشش کی لیکن۔ ’’ چہ نسبت خاک را ، با عالم ِ پاک؟ ‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر پاکستان منتخب ہونے سے قبل آصف زرداری نے فریال تالپور صاحبہ کو اپنا "Covering Candidate" بنا لِیا تھا اور خبروں کے مطابق ’’ پاکستان میں امریکی سفیر سے درخواست کی تھی اگر مجھے کچھ ہو جائے تو، میری بہن کی حفاظت کی جائے‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب سے پہلے فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو خوف تھا کہ’’ کہیں سرکاری ملازم ( فیلڈ مارشل ) کی حیثیت سے اُنہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخاب کے لئے نااہل قرار نہ دے دے ۔چنانچہ اُنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا "Covering Candidate" بنا لِیا تھا لیکن، صدر محمد ایوب خان جیت گئے۔ اگر اُس انتخاب میں پاکستان کے ہر عاقل بالغ شہری کو ووٹ دینے کا حق ہوتا تو، صدر محمد ایوب خان کی ضمانت ضبط ہو جاتی۔ آنجہانی حاکم علی زرداری کو قدرت نے یہ سزا دِی کہ ’’ جب وہ "Pims" اسلام آباد میں آخری دموں پر تھے تو، صدرِ پاکستان آصف زرداری "Security Officers"کے مشورے پر اپنے والد سے آخری ملاقات نہیں کر سکے تھے ؟۔ کاش آج حاکم علی زرداری زندہ ہوتے تو، دیکھتے کہ ’’ اُن کے فرزندِ آصف زرداری ( جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو گھسیٹ کر سیاست میں لائی تھیں) اُن کی بیٹی فریال تالپور اور پوتے بلاول بھٹو زرداری ، کِس حال میں ہیں‘‘ ۔ صورت یہ ہے کہ لاڑکانہ کی طرف مُنہ کر کے ہر جیالا یہ پیغام بھجوا رہا ہے کہ … ہور سُنائو سجنوں ، کِیہ حال چال اے! …O… اب مَیں ’’الیکشن کمیشن آف ‘‘ پاکستان کے پاس مسلم لیگ کے نام سے 15/14 رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے قائدین سے پوچھتا ہُوں کہ ’’ جب نااہل وزیراعظم "His Master`s Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 13 اکتوبر کو وزیراعظم ہائوس میں تحریکِ پاکستان کے مخالف مفتی محمود کی یادگار ’’ لوحِ مفتی محمود‘‘ کی نقاب کُشائی کررہے تھے تو وہ دانت کیوں نکال رہے تھے؟ اور جب 5 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں ابنِ مفتی محمود ، فضل اُلرحمن صاحب ، مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار تھے تو، وہ سب خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ ۔وہ یوم حشر کو قائداعظمؒ کو کیا جواب دیں گے؟۔