وزیر اعظم پاکستان نے دو روزہ بین الاقوامی رحمۃ للعالمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ،اس امر کا اعلان کیا کہ دنیا میں مذاہب کی توہین روکنے کے لیے ،ہم بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا کنونشن دستخط کروانے جارہے ہیں، جس پر تمام ممالک متفق ہوں۔ انہوں نے کہا اس اتفاق رائے کو پید ا کرنے کے لیے ہم پوری دنیا سے رابطہ کریں گے اور اس سلسلہ میں بین الاقوامی قانون کے ماہر احمربلال صوفی کو معاون خصوصی بنانے اور ان کو یہ ذمہ داری تفویض کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ اس قانون کے تحت ،اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں ، کوئی طبقہ ، سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری نہ کرسکے ،پاکستان اس قانون کی تشکیل میں سب سے آگے ہوگا۔ میلادُ النبیﷺ کی مناسبت سے ،وفاقی وزارتِ مذہبی امور وبین المذہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام 11،12ربیع الاوّل کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقدہ عظیم الشان کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں ، ایک ایسے اجتماع سے وزیر اعظم نے ایک مؤثر خطاب کیا ، جس میں تمام مکاتبِ فکر کی نمائندہ علمی ،اور دینی شخصیات کے ساتھ وفاقی کابینہ کے اہم ممبران بھی موجود تھے ۔ کانفرنس میں وطنِ عزیز کے اکابر علماء کے ساتھ ، دنیا کی معروف علمی شخصیات نے بھی اظہا رخیال کیا ، جن میںعراق سے ڈاکٹر عمار جوکہ ہا ورڈ کے فاضل اور جدید حلیہ سے آراستہ تھے ، انگریزی زبان میں، ان کے خطبہ کے دوران کنونشن سنٹر زور دار تالیوں سے گونجتا رہا۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے ڈاکٹر احمدعلی سراج ،مسلم ہینڈز برطانیہ کے سیّد لخت حسنین، سعودی عرب سے پروفیسر عبدالسلام دائود ، ایران سے ڈاکٹر سیّد حسن شیرازی ،ادارہ منہاج القرآن سے ڈاکٹر حسین محی الدین ،وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے ڈاکٹر محمد یٰسین ظفر ،وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے قاضی نیاز حسین نقوی اور اس عظیم الشان کانفرنس کے میزبان اور منتظم صاحبزادہ ڈاکٹر محمدنور الحق قادری کے خطبات بھی اہم تھے۔ کانفرنس کا کلیدی موضوع ’’ختم نبوت اور مسلمانوںکی ذمہ داریاں۔۔۔ تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں‘‘جبکہ کانفرنس کاٹائٹل ’’رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تھا ، کانفرنس کے اسی کلیدی موضوع کے تحت صوبائی ، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر سیرت النبی ﷺ کانفرنسز کا انعقاد اس اعتبار سے ایک مستحسن قدم ہے کہ ’’مسئلہ ختم نبوت ‘‘اورناموسِ رسالت ﷺ کی آڑ میں بعض مذہبی گروہ حکومت کو بے جا دبائو میں لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ حکومت کے اس بروقت اقدام سے بہت سی منفی باتوں کی بیخ کنی ممکن ہو گی ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پرہر سال ربیع الاوّل میں سیرت النبی ﷺکانفرنسز چونکہ ایک بہت وقیع فورم اور گذشتہ بیالیس سالہ یہ روایت ۔۔۔ ہماری ملّی ،دینی اور قومی تاریخ کاایک تابناک باب ہے ، اس موقع پر تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور دینی شخصیات کا یکجا ہونا ، از خود سوسائٹی کے اندر ملّی یکجہتی ، ملکی استحکام ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور روادانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ وفاقی حکومت سے پہلے ، دس ربیع الاوّل کو لاہور میں عالمی سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی تھی، جس میں جملہ مسالک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معتبر شخصیات کے علاوہ بین الاقوامی سکالرز کی موجودگی خصوصی طو ر پر قابل ذکر ہے۔ جناب وزیراعظم نے جس طرح "Convention"کی تیاری اور پھر اُس پر اتفاق رائے کی بات کی ہے، یقینا یہ ایک مستحسن قدم ہے ،بین الاقوامی سطح پر ماضی میں بھی اس نوعیت کے معاہدات دنیا میں ہوتے رہے ، بالخصوص دنیا میںپائیدار امن کے قیام کے لیے بعض ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں /تنظیمات جن میںایک اہم نام آئی سی آر سی ( Internation committee of the Red cross)کاہے ،جس نے جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے دنیاکو محفوظ رکھنے کے لیے 1864ء سے لیکر 1949ء تک، مختلف اوقات میں سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میںہونے والے معاہدات پر اقوام عالم کے دستخطوںکا اہتمام کیا ،جن کا مقصد جنگوں کو منضبط کرنا ، جنگ میںحصہ لینے والے افراد کے حقوق وفرائض ،جنگ میں مزید حصہ نہ لینے والوں ،زخمیوں ، عام شہریوں کی املاک،ان کی زندگیوں کی حفاظت اور جنگی قیدیوں سے انسانیت پر مبنی سلوک کو یقینی بنانا تھا ۔ ان معاہدات کی مزید تکمیل 1977ء کے دو اضافی پروٹوکول سے ہوئی ہے ۔ اسی طرح نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں متعدد معاہدات ہوئے ،جنہیں Hague Conventionsکہاجاتا ہے ۔ ان معاہدات میں جنگی طریقوں کومنظم کیا گیا، یعنی جنگ میں کونسے ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور کونسے ممنوع ہیں ۔ ان معاہدات میں ممنوع افعال کو جنگی جرم (War Crime) قرار دیا گیا ہے ،جس کے لیے ایک عالمی عدالت International Criminal Courtکا قیام عمل میں لایا گیا ، تاکہ ان قوانین کی عملاً تنفیذکی جاسکے ۔ جنیوا اور ہیگ کے مذکورہ معاہدات کا بنیادی مقصد انسانوں کی تکالیف کا ازالہ کرناہے ۔ اسی طرح ریاستوں کے مابین تعاون اور تعلقات کے حوالے سے کئی بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں ۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اس حوالے سے ،از خود ایک مثال ہے ۔بین الممالک تنازعات کے پُر امن حل کے لیے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف موجود ہے ۔ یہ تمام تر کوششیں دُنیا میں فروغ امن کے لیے ہیں ۔ ہر وہ عمل جو بین الممالک اور بین المذاہب امن کو سبو تاژ کرنے کا باعث ہو، اُس کا سدّ باب ضروری ہے ۔ یہاںیہ نقطہ بھی قابل ذکرہے کہ مغرب اپنی تمام تر جدّت طرازی اور روشن خیالی کے باوجود ، حضرت عیسیٰؑ کی توہین کو قانونی طور پرجرم سمجھتا ہے ۔بالخصوص سابقہ ادوار میں تو تقریباً تمام یورپی ممالک میں خدا ،یسوع مسیح، روح مقدس اور عقیدہ تثلیث کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت قانون موجود تھے ،اور تمام تر ترقی اور آزادی رائے کے باوجود جدید یورپی قوانین میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف قانون کو نکالا نہیں جاسکا ،ممکن ہے ان کے نفاذ اور عملدرآمد میںوہ سختی نہ ہو۔جناب وزیر اعظم کے مذکورہ خطاب کی روشنی میں ضروری ہے کہ دنیاکے تمام ممالک کی ایک ڈپلو میٹک کانفرنس منعقد کی جائے، جس میں ایسے ماہرین شامل ہوں ، جو بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کے بنیادی عقائد سے بھی بھرپور واقفیت رکھتے ہوں اوروہ مل کرایسی متفقہ قانون سازی کریں جو دنیا بھر کے تمام باشندوں پر تمام مذاہب کی مقتدر شخصیات کے احترام کو لازم ٹھہرائیں۔ ’’جنیوا کنونشنز‘‘ اور ’’ہیگ کنونشنز ‘‘کی طرز پر ایک اور ’’انٹرنیشنل کنونشن ‘‘ترتیب دیا جائے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے ایک بین الاقوامی عدالت قائم کی جائے تاکہ دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والے باہم دست وگریباں نہ ہوںاور دنیا کا امن تباہ وبرباد نہ ہو۔ اس ضمن میں پاکستان کا کردار کلیدی ہوسکتا ہے ،جس کے لیے پاکستان کو ایک بین الاقوامی ڈپلو میٹک کانفرنس منعقد کرکے، اس کارِ عظیم میں سبقت حاصل کرنی چاہیے ۔