آج کل کئی طرح کی آن لائن سروسز ہمیں مل رہی ہیں۔ آپ آن لائن ٹیکسی منگوا سکتے ہیں۔ آن لائن شاپنگ کر سکتے ہیں‘ آن لائن سروس کے ذریعے کھانا منگوا سکتے ہیں‘ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کا آرڈر پورا کرنے کے لئے جس انسان کو متعین کیا جا رہا ہے وہ محض ایک ڈرائیور یا ڈلیوری بوائے نہیں‘ ایک انسان ہے۔ گزشتہ دنوںہمارے دوست کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا‘ اسی کی زبانی سنیں۔ دفتر سے دیر گئے گھر پہنچا‘ کھانا تیار تھا لیکن دل کچھ اور کھانے کو چاہتا تھا۔ فون اٹھایا اور ایک فوڈ کمپنی کو آرڈر کر دیا۔ آرڈر ڈیلیوری کا ٹائم 30منٹ بتایا گیا۔ بچوں کے ساتھ باتیں کرتے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ 45منٹ گزر گئے۔ فوڈ کمپنی کا فون آیا۔ بتایا گیا کہ آپ کی ڈیلیوری خراب ہو گئی ہے‘ کیا آرڈر کے لئے دوبارہ کہیں گے یا ری فنڈ چاہیں گے؟ پوچھا خراب ہونے کا مطلب؟ بتایا گیا کہ ڈیلیوری بوائے کی موٹر سائیکل سلپ ہوکر گر گئی ہے۔ اور آپ کا آرڈر کیا گیا کھانا ٹھیک حالت میں نہیں رہا۔ پیچھے سے کچھ آوازیں آ رہی تھیں۔ کوئی شخص چلا رہا تھا‘ دھیان ان آوازوں کی طرف منتقل ہو گیا۔ چلانے والا شخص کسی سے کہہ رہا تھا : تم کتنے لاپرواہ اور احمق ہو۔ ہمارا نقصان کر دیا‘ کمپنی کی ساکھ خراب کر دی‘ ہماری ریٹنگ متاثر ہو گی۔ تم لوگ کسی کام کے نہیں تمہیں کام دینا ہی نہیں چاہیے۔چلانے والا آدمی ڈیلیوری بوائے سے چوٹ لگنے کی بابت بات نہیں کر رہا تھا،اسے بس اپنی کمپنی کی ریٹنگ کی فکر تھی، محسوس ہوا کہ کمپنی کا کوئی مینجر وغیرہ ہے جو موٹر سائیکل سلپ اور کھانا خراب ہونے پر ڈیلیوری بوائے کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ میں نے کال کرنے والے سے کہا کہ میں ڈیلیوری بوائے اور مینجر سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ چند لمحوں بعد ایک دھیمی سی آواز میں ہیلو کہا گیا۔ میں نے السلام علیکم کہا اور کھانے کی بجائے اس کی خیریت پوچھی‘ پوچھا کہ کوئی چوٹ تو نہیں لگی۔ پھر اس کا نام پوچھا۔ میں نے اس سے ڈیلیوری کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ وہ میرے ہمدردانہ انداز پر روہانسا ہو رہا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی اور اپنے ایک دوست ڈاکٹر کا بتایا جو بلا معاوضہ اس کا چیک اپ کر سکتا تھا۔ پھر مینجر سے بات کی تو میں نے اسے کاروبار کا بنیادی اصول سمجھایا۔ بتایا کہ جہاں کام ہوتا ہے وہاں غلطی بھی ہوتی ہے اور کئی بار اتفاق سے کچھ برا ہو جاتا ہے جس میں کسی کا قصور نہیں ہوتا ۔ ہماری دنیا ہر لمحہ پھیل رہی ہے‘ تبدیل ہو رہی‘ یہ بدلتی دنیا ہمارے لئے مشکل ہو سکتی ہے اگر ہم اپنے جذبات کو اس سے ہم آہنگ نہ کر پائیں۔ برسوں پہلے واقعات کی رفتار سست ہوا کرتی تھی۔ جذبات کی تربیت گھر سے ہونا تسلی بخش تھا۔ بڑوں میں والدین‘ بزرگ رشتہ دار اور استاد شامل تھے۔ اس زمانے میں دفتری باس تخلیق نہیں ہوا تھا۔ ساتھی کارکنوں میں شاذ ہی کوئی خاتون ہوتی‘ مزدور صرف ناخواندہ اور غریب گھروں کے بے آسرا افراد ہوتے‘ انٹرنیٹ اور موبائل نے ایک ڈیجیٹل شخصیت بنائی۔ اب ہم سب جس رویے کا اظہار کرتے ہیں اس کا بیشتر سبق ہمیں ٹیکنالوجی اور تیزی سے بھاگتے معاشرے نے پڑھایا ہے۔ اس تیز رفتاری کا جن لوگوں کو ادراک ہے انہوں نے موٹیویشنل میٹریل سے رہنمائی لی۔ ماہرین سے لیکچر لئے اور خود کو بدلنے کی کوشش کی۔ جن کاروباری اداروں نے کاروبار کا آن لائن نظام نہیں اپنایا وہ آج بھی سو قسم کی پیچیدگیوں اور مسائل کا شکار ہیں۔ جس طرح بجلی کے لائن لاسز سے یہ قیمتی ایندھن ضائع ہو جاتا ہے اسی طرح دستی حسابات میں کیا چیز کدھر گئی اس کا اندازہ نہیں رہتا۔ ہم سب کے سامنے کچھ ترغیبات ہیں۔ بعض ترغیبات بیالوجیکلی ہمیں لبھاتی ہیں۔ باقی ہمارے ماحول اور سماجی اداروں سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ جنس‘ پانی اور خوراک ہماری بیالوجیکل ترغیبات ہیں۔ ہمارا رویہ اس وقت مثبت کہلاتا ہے جب ہم معاشرے کے مثبت معیار کے مطابق اس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کے لئے کس طرح قابل قبول ہوتے ہیں‘ ہم خطرات کا شکار ہوئے بغیر کسی طرح کامیابی کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ یہ سب جاننا اور پھر اس کی تربیت حاصل کرنا ضروری ہے‘ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم اپنے ماحول اور اپنی ذات کے درمیان ہم آہنگی اور توازن کھو بیٹھیں گے۔ تبدیلی سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہم ورزش گاہ جاتے ہیں‘ کسی ٹریننگ کیمپ میں شرکت کرتے ہیں۔ کسی تھیراپی سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ کہیں سے کوچنگ لیتے ہیں۔ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن تبدیلی کبھی ایک سادہ اور آسان کام نہیں رہا۔ خواہش کی شدت ہی تبدیلی کا ایندھن ہوتی ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ تبدیلی کا عمل ہمارے لئے سکون اور آسانی کا باعث ہو گا تو ہم سب اس کی حمایت کرتے ہیں چاہے تربیتی عمل ہمیں کتنا ہی درد عطا کرے۔ سیاسی تبدیلی کی خواہش شدت سے ہم سب میں موجود ہے۔ اس تبدیلی کے لئے ہم کئی عشروں سے مخصوص سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کرتے رہے۔ ہم سب نے ہمیشہ خود کو مشکل تربیتی سیشن میں الجھائے رکھا مگر تبدیلی نہیں آئی۔ جب تبدیلی آنے لگتی ہے تو یکایک ہماری خواہش پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ ہماری خواہش کمزور ہوتی ہے تو پھر نئی سودے بازی کر کے پرانے استحصالی کھلاڑی آ جاتے ہیں۔ سفر ختم ہوتا ہے اور پھر نیا سفر درپیش ہوتا ہے۔ اس ساری صورت حال میں ہمارا رویہ کیوں نہیں بدل سکا‘ غور کیجیے گا۔