یہ امر خوش آئند ہے کہ تین سال کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم نے وسیب کی طرف رخ کر لیا ہے۔ وزیر اعظم کی لیہ آمد خوش آئند ہے اس سے پہلے وہ ملتان کا دورہ کر چکے ہیں اور اگلے قدم کے طور پر بہاولپور جائیں گے۔ گزشتہ شب وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار ملتان میں تھے انہوں نے وسیب کی ترقی کے حوالے سے افسران کو ہدایات دیں اور وسیب کے سیاستدانوں سے ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان کی معاون خصوصی محترمہ فردوس عاشق اعوان اور پارلیمانی سیکرٹری ندیم قریشی نے مقامی ہوٹل میں صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا راقم نے مہمانوں کو وسیب کی مہمان نوازی کے طو رپر سرائیکی اجرکیں پہنائیں تو اس کا خوشگوار تاثر قائم ہوا اور تقریب میں ملتان کے قدیم رنگ نظر آئے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان نے تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ ہماری حکومت سرائیکی صوبہ بنائے گی اور سول سیکرٹریٹ اس کا پہلا قدم ہے۔ ۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان نے خصوصی طور پر سرائیکی زبان کی مٹھاس اور چاشنی کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا سرائیکی زبان و ثقافت عظیم بھی ہے اور قدیم بھی اسے ترقی ملے گی۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان کا شکریہ ۔سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جہاں تک بولنے والوں کی بات ہے تو بولنے والے تو مجبور ہیں ، ریاست تعلیمی اداروں میں جو زبان رائج کرے گی وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ اردو پڑھائی جائے کہ یہ قومی زبان ہے، انگریزی پڑھائی جائے کہ اردو اعلیٰ تعلیم اور دفتری امور کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ، عربی پڑھائی جائے کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، فارسی کو بھی ختم نہ ہونے دیا جائے کہ اس نے برصغیر پر ہزار سال حکومت کی۔اسی طرح دھرتی ماں کی بو لیوں اور زبا نوں کابھی ایک حق ہے۔ محض بدیسی زبانوںکو مسلط کر نا قرین انصاف نہیں ۔ ہی لسانی تعصب ختم ہونا چاہیے ۔ پاکستان کی قو می زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے۔ حکومت ماروی میمن بل کی منظوری دے اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ انگریزوں نے اپنی ماں بولی کو تو ترقی دی اور پوری دنیا میں انگریزی کا راج ہے لیکن جن علاقوں پر قبضہ کیا تو وہاں کی مقامی زبان اور ثقافت کا گلا گھونٹ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں بولیاں ترقی نہ کر سکیں ۔ سرائیکی رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے 1849 ء میں جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، اردو کو پروان چڑھانے کا ایک مقصد مغلوں کی فارسی کو رخصت کرنا دوسرا دھرتی کی اصل زبانوں کو نیست و نابود کرنا تھا، انگریزوں کو پتہ تھا کہ اردو مصنوعی زبان ہے، اس کا اپنا کوئی خطہ یا اپنا کوئی جغرافیہ نہیں، اس زبان سے کوئی ایسی قوم وجود میں نہ آ سکے گی جس سے اسے خطرہ ہو، ۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ ایماندار انگریز افسر اپنی دیانتدارانہ رائے بھی دے رہے تھے ماں بولیوں کا حق بھی ہے اور ان کی ترقی اور تعلیم کے ذریعے خواندگی کی شرح میں اضافے کے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر شاہ پور (حالیہ سرگودھا) میجر ولسن کے نوٹ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی باتیں ’’پنجاب میں اردو ‘‘ نامی کتاب میں شائع ہو چکی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ماں بولیاں انسان کو انسان بناتی ہیں اور اگر آپ کسی شخص کو ان کی ماں بولیوں اور ان کے تہذیبی ورثے سے محروم کریں گے تو پھر یونہی سمجھئے انسانی زندگی کی مشینری انسان نہیں روبوٹ چلا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود ان زبانوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں۔ حملہ آور حکمرانوں کے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، مغلوںنے فارسی کو ذریعہ اظہار بنایا، انگریزوں نے 1849ء میں قبضہ کیا تو اس نے فارسی کو رخصت کرنے کے لئے اردو کو نافذ کیا اور ساتھ ہی انگریزی کو بھی آگے بڑھاتا رہا، انگریز نے ماسوا سندھی باقی تمام زبانوں کا سر کچلا، اسے زبانوں و ثقافتوں کی طاقت اور قوت کا مکمل ادراک تھا۔ اسے علم تھا زبان و ثقافت سے قوم بنتی ہے اور پھر جب قوم اپنے وسیب ، اپنے خطے اور اپنی ماں دھرتی کے دفاع کیلئے باہر اتی ہیں تو پھر حملہ آور بدیسی حکمران نیست و نابود ہو جاتے ہیں، اس لئے انگریز نے قوموں کا وجود ہی نہ بننے دیا۔