جیسے مجید امجد نے کہا تھا کہ برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں، شہر میونخ میں آج کرسمس ہے تو ان اثر انگیز مصرعوں کا ستیا ناس کرنا ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دل دھڑکتے ہیں، ڈھول بجتے ہیں، شہر لاہور میں آج الیکشن ہے۔ صرف لاہور میں ہی نہیں ملک پاکستان میں آج الیکشن ہے۔ ابتدائے عشق میں ہم ساری رات جاگے، اللہ جانے کیا ہوگا آگے، مولا جانے کیا ہوگا آگے، ہم نہیں جانتے کہ کیا ہو گا آگے، جو بھی ہو اللہ کرے، مولا کرے کہ وہ پاکستان کے شجر کی جڑیں مضبوط کرے جو کھوکھلی ہورہی ہیں، یہ شجر اتنا ثمر آور ہو کہ اس کا پھل ہماری آئندہ نسلوں کی جھولیاں بھر دے۔ اس کے دریائوں کا بہائو کبھی نہ تھمے، اس کی ندیاں دودھ ہو جائیں اور بھوکی خلق خدا جی بھر کے اسے پئے، اس کے صحرائوں کی ریت کے ذرے سونا ہو جائیں، انصاف ملے اور پینے کوصاف پانی ملے۔ سب کو قدرتی موت آئے، روز قیامت سب کی بخشش ہو جائے، کچھ غرض نہیں کہ تیر چلے، بلا سنچری کرے یا شیر دھاڑے۔ بس یہ ہے کہ تیر پھر سے عوام کے سینے میں نہ اتر جائے، غربت کے اژدھے کو شکار کرے، بلا کہیں اپنی وکٹوں کو ہی مسمار نہ کردے، سکور کرے۔ انصاف کا ایک ترازو ہو جائے۔ شیر پھر سے پاکستان کو ہی نہ شکار کرے، شکار سے توبہ کرلے۔ میرے جیسے قدرے بہکے ہوئے بابا جات کو ایک بڑی سہولت ہوتی ہے۔ اگر کسی موضوع پر کالم لکھنے کے لیے کچھ نہ سوجھے تو فوری طور پر ماضی کی قبریں کھود کر کچھ دفن شدہ یادیں برآمد کر کے، انہیں جھاڑ پونچھ لیا۔ تو میں بھی اپنا حق بزرگی استعمال کر کے ماضی کے الیکشنوں کو نہیں بلکہ الیکشن نشریات کو یاد کرتا ہوں کہ ان زمانوں میں پی ٹی وی کا مردہ گھوڑا ابھی بگٹٹ بھاگتا تھا، اور کبھی دڑ کی چال نخرے سے چلتا تھا، میں نے شائد کسی بھی میزبان کی نسبت سب سے زیادہ الیکشن نشریات بھگتائیں، اس لیے مجھے پی ٹی وی نے مجھے مسٹر الیکشن کے نام سے پکارا۔ بلکہ اگر میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر تواتر سے دکھائی دیتا تو کوئی نہ کوئی سادہ دل مجھ سے پوچھتا کہ تارڑ صاحب… کیا الیکشن ہونے کو ہیں۔ ہمارے پیارے صدر ضیاء الحق کا طیارہ جب فضا میں ’’پٹ‘‘ گیا تو ان کی بہ چشم نم رخصتی کے بعد موقع غنیمت جان کر الیکشن کا اعلان کردیا گیا اور وہ بھی ڈرتے ڈرتے کہ کہیں موصوف مسکراتے ہوئے پھر سے نازل نہ ہو جائیں۔ پی ٹی وی کے اسلام آباد سٹوڈیوز میں ایک نہایت وسیع اورشاندار سیٹ الیکشن نشریات کے لیے تعمیر کیا گیا۔ تقریباً تین روز مسلسل یہ نشریات جاری رہیں۔ اگر اس دوران جو حادثے ہوئے، جو لطیفے اور سانحے ہوئے انہیں بیان کرنے لگوں تو ایک کتاب ہو جائے۔ مجھے اور مہتاب اکبر راشدی کو مرکزی میزبانوں کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یاد رہے کہ مہتاب ٹیلی ویژن کی بہت پسندیدہ میزبان ہوا کرتی تھیں، پھر جب ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے والی خواتین کو ’’باحیا‘‘ بنانے کے لیے حکم آ گیا کہ وہ بہرصورت دوپٹہ اوڑھیں گی تو مہتاب نے انکار کردیا کہ مجھے دوپٹہ اوڑھنے پر کچھ اعتراض نہیں لیکن صرف ٹیلی ویژن پر کام کرنے کے لیے مصلحت کے تحت، دھمکی سے نہیں اوڑھوں گی۔ چنانچہ ایک عرصے کے بعد مہتاب کی یعنی عذرا کی واپسی ہوئی تھی۔ ہماری ’’پرفارمنس‘‘ کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اگلے جمعہ کے روز مشہور عالم لال مسجد کے مشہور عالم مولانا نے خطبے کے دوران ہم دونوں کے نام لے کر ہمیں خوب رگیدا تھا صرف اس لیے کہ ہم دونوں نشریات کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ بہت ’’فرینک‘‘ تھے۔ یعنی نامحرم تھے اور ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، اس دوران ایک ’’ایپل کنٹراورسی‘‘ کا بھی چرچا ہوا۔ ہوا یہ کہ مسلسل نشریات کے دوران کھانے پینے کا موقع نہ ملا تو میں نے اپنے بیگ میں سے ایک سیب نکالا جو میں ہنگامی حالات کا سامنا کرنے کے لیے سٹوڈیو میں لے آیا تھا۔ گفتگو کے دوران میں نے وہ سیب نکالا اور کچر کچر کھانا شروع کردیا۔ مہتاب کہنے لگیں، تارڑ صاحب ایک سیب ہمیں بھی دیجئے تو میں نے کہا۔ سیب اپنا اپنا۔ اس دوران نشریات کے انچارج ظہیر بھٹی نے ایئرفون پر مجھے کہا کہ تارڑ یہ کیا کر رہے ہیں آپ آن ایئر سیب کھا رہے ہیں تو میں نے فوراً سیب کھانا بند کردیا اور کیمرے سے مخاطب ہو کر کہا ’’خواتین و حضرات، ذرا آپ ہی انصاف کیجئے۔ ٹیلی ویژن والے ہمیں سرکاری خزانے سے کھانا بھی نہیں کھلاتے۔ اب بھوکے پیٹ کوئی کہاں تک میزبانی کرے۔ یہ مجھے اپنا ذاتی سیب بھی کھانے نہیں دیتے۔ چند منٹ کے بعد ظہیر بھٹی پھر مجھ سے مخاطب ہوا ‘‘تارڑ صاحب تم نے کیا پھڈا ڈال دیا ہے۔ فون پر فون آتے چلے جا رہے ہیں کہ تارڑ صاحب کو سیب کھانے دیں تو پلیز کھالو۔‘‘ چونکہ میں نے کم از کم تین الیکشن نشریات میں طویل میزبانی اختیار کی تھی چنانچہ میں جن واقعات کا ذکر کررہا ہوں یہ ان تینوں کی ایک کاک ٹیل ہے۔ ایک آمیزش ہے۔ چونکہ میں ایک آوارہ گرد کے طور پر پاکستان کے جغرافیے کو جانتا تھا۔ مختلف شہروں، قصبوں اور خطوں کی تاریخ کے بارے میں کسی حد تک آگاہ تھا چنانچہ کسی بھی امیدوار کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے حلقے کے بارے میں کوئی نہ کوئی تاریخی حقیقت بیان کردیتا۔ کوئی ایک الیکشن نشریات کا قصہ ہے کہ حسب معمول ایک روز قبل آن سیٹ ریہرسل ہوئی تاکہ آپ جان جائیں اور کیمرے آگاہ ہو جائیں کہ آپ نے سیٹ کے کون سے حصے سے چلتے ہوئے الیکشن کی اہمیت اور نشریات کی غرض و غائت بیان کرتے ہوئے کہاں رکنا ہے اور کہاں کیمروں سے مخاطب ہونا ہے۔ حسب عادت میں نے موقع کی مناسبت سے ایک سکرپٹ تیار کر رکھی تھی اور اسے نہایت عرق ریزی سے زبانی یاد کر رکھا تھا۔ نشریات سے ایک روز قبل آن سیٹ ریہرسل کے آغاز پر میں نے مناسب ادائیگی کے ساتھ وہ سکرپٹ بیان کردی کہ خواتین و حضرات میں دنیا کے بہت سے شہروں میں گیا لیکن آج ایک انوکھے اور خوبصورت ترین شہر میں ہوں اور یہ ہے الیکشن سٹی۔ شہر الیکشن۔ جسے پی ٹی وی کے تخلیق کاروں نے آباد کیا ہے اور اس شہر میں گلیاں ہیں، کسی گلی میں الیکشن پر تبصرے کرنے والے صحافی رہتے ہیں، کہیں گلوکار رنگ جما رہے ہیں اور کہیں ہماری ثقافت کی جھلکیاں ہیں۔ اگلے دو تین روز آپ میرے ہمراہ اسی الیکشن سٹی میں بسر کریں گے۔ وغیرہ۔ الیکشن نشریات کے پہلے تین گھنٹوں کے سیشن کے دوران صرف مبصرین کی گفتگو ہوتی تھی یا موسیقی کے پروگرام ہوتے تھے۔ نتائج نہیں آتے تھے، کچھ دیر بعد آتے تھے۔ چنانچہ میں نے الیکشن نشریات کا آغاز کرنے سے معذرت کی اور دوسرے سیشن کے لیے میزبانی اختیار کی جب نتائج کی بارش کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں ٹیلی ویژن آن کر کے نشریات کا آغاز دیکھ رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دوست بہت گرجدار آواز والے میزبان سکرین پر نمودار ہو کر وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو میں نے کہنا تھا۔ کہ یہ الیکشن سٹی ہے اور اس میں کچھ گلیاں ہیں وغیرہ۔ وہ میری سکرپٹ کو حرف بہ حرف دوہرا رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ جان بوجھ کر نہیں وہ بھی لفظوں پر قدرت رکھتے تھے۔ میرے ہاتھ پائوں پھول گئے کہ اب میں کیا کروں گا۔ بہر طور پہلے سیشن کے بعد جب ’’چینج آف گارڈز‘‘ ہوا یعنی۔ تبدیلی آئی رے۔ اور میں مہتاب راشدی کے ہمراہ آن ایئر سیٹ پر داخل ہوا تو قدرے کمینہ ہوگیا۔ میں نے کیمروں سے مخاطب ہو کر کہا، خواتین و حضرات۔ میرے دوست میزبان نے مجھ پر احسان کردیا۔ کل ان نشریات کی ریہرسل کے دوران جو کچھ میں نے کہا کہ یہ الیکشن سٹی ہے اور اس کی کچھ گلیاں ہیں، تو انہوں نے وہی کچھ دوہرا دیا۔ ان کا شکریہ۔ بعدازاں پی ٹی وی نے الیکشن کی جتنی بھی نشریات کا اہتمام کیا، سیٹ کو الیکشن سٹی کا نام دیا گیا۔ یہ وہ زمانے تھے جب الطاف حسین کراچی شہر کا دیوتا نہیں کالی دیوی ہوا کرتی تھی۔ آپ کسی دوسرے کی شان میں گستاخی کرسکتے تھے لیکن بھائی کے لاحقے کے بغیر صرف الطاف حسین کی جسارت نہیں کر سکتے تھے کہ الطاف بھائی دراصل پٹ سن کی بوریوں کے سب سے بڑے بیوپاری تھے اور ہر بوری میں ایک لاش ہوا کرتی تھی۔ اس الیکشن میں ان کی جماعت ایم کیو ایم اپنے نام سے نہیں بلکہ ’’حق پرست‘‘ کے نام سے شرکت کر رہی تھی۔ اب ہوا یہ کہ طارق عزیز نے فرط جذبات سے مغلوب ہو کر کہیں کہہ دیا کہ خواتین و حضرات یہ جو کراچی میں امیدوار ’’حق پرست‘‘ کے نام سے لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کر رہے ہیں تو یہ سب ایک سیاسی جماعت کا ’’گروہ‘‘ ہیں۔ طارق اپنی زبان دانی کا مظاہرہ انجانے میں کر گئے۔ فوری طورپر الیکشن نشریات کے دوران محترم الطاف بھائی نے ان کی پارٹی کو ’’گروہ‘‘ کہنے پر ٹیلی ویژن سٹیشن جلا دینے کی دھمکی دی اور نہایت خفا ہو گئے۔ ٹیلی ویژن حکام نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر الطاف بھائی سے معافی مانگ لی جائے۔ لیکن معافی کون مانگے ایسی کہ الطاف بھائی ہمیں بوری میں بند نہ کردیں۔(جاری ہے)