جاہلیت دراصل قرآن و حدیث سے ماخوذ اصطلاح ہے جو اسلام سے پہلے جزیرۃ العرب کی اخلاقی، اعتقادی اور ان کے رہن سہن کی روش و رفتار کی نسبت استعمال ہوتی ہے اوراسے زمانہ جاہلیت کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جہل اور اس کے مشتقات کا استعمال علم و دانائی کے مقابلے میں استعمال ہونے کی بجائے زیادہ تر کردار و رفتار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید نے جزیرہ نمائے عرب میں، تاریخ عرب کے ایک خاص دور کو توجہ دیتے ہوئے اس زمانے کے لوگوں بالخصوص ان کے رئوسا کی اخلاقی بدحالی اور ان کے کرداراور رویوں کی پستی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔بتلانے کامقصود ومطلوب یہ تھا کہ حاملین قرآن کردارکی پستی ،اخلاقی بدحالی اوررویوں کے بھیانک گراوٹ سے اپنے آپ کو بچا کرایک صالح معاشرہ تشکیل دیں اوراس تمام غلاظت ، جرائم اورگناہوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو زمانہ جاہلیت میں موجود تھے ۔ لیکن آج ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں اوراپنے کانوں سے سنتے ہیں کہ کل کی طرح آج بھی جہالت اورجاہلیت کا روگ انسانوں اور ملکوں میں پایا جاتا ہے جو انسانیت اور قوموںکو اسفل سافلین اورقعر مذلت میں پھینک دیتا ہے ۔واضح رہے کہ جاہل کم پڑھے لکھے انسان کو نہیں کہتے جہالت کا تعلق انسان کی حس سے ہوتا ہے۔جب آپ قرآن کے مقدس اورپاکیزہ کلمات پر تدبر اور تفکر کریں گے تو آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ وہ انسان کی اسی حس کو زندہ کرتے ہیں۔اس حقیقت ابدی کے تناظرمیں یہ بات حتمی سمجھ لینی چاہئے کہ جس طبقے کی حس بیدار نہ ہو وہ جاہل ہے ۔ وہ لوگ جاہل ہرگز نہیں کہلاتے کہ جن کی حس اس قدر بیدار ہو کہ اچھی طرح جانتے ہوں کہ ا ن کے اپنے لئے اوران کی ملک و قوم کے لئے خوب کیا ہے اورناخوب کیا۔ ملکی ،ملی اورقومی مفادات کس امرمیں پوشیدہ ہیںاورملک وملت اورقوم کے لئے کون کون سے امور اسے تاریک کھائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ آپ کے مشاہدہ میں کئی مرتبہ یہ بات آئی ہوگی اورآپ نے دیکھا ہو گا کہ کسی خاص موقع پر کم پڑھے لکھے ایساکردار ادار کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے بانی پاکستان نے جب قیام پاکستان کا بیڑا اٹھایا تو ان کی آواز پر لبیک کہنے والے عوام الناس میں غالب اکثریت کم پڑھے لکھے عوام کی تھی پھر چشم فلک نے دیکھاکہ کس طرح انہوں نے کایا پلٹ کے رکھ دی ۔ ا س کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت پڑھے لکھے جو اپنے آپ کوعقل کل اور بڑے بڑے سقراط ، بقراط اورافلاطون سمجھتے ہیں ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں کہ’’ لمحوں نے خطاکی صدیوں نے سزاپائی‘‘ کے مصداق ملک وملت اور قوم کو بہت بڑے وقت تک ان کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ عصر موجود میں اس طبقے کی پہچان کوئی مشکل اوردشوار نہیں ۔مملکت پاکستان میںحکومتیں بنانے کے لئے رائج طریقہ یعنی الیکشن یاانتخابات کے لئے ووٹ کاسٹ کرتے وقت جولوگ آنکھیں بند کرکے سیکڑوں کنال اراضی پر استادہ محلات میں پر تعیش زندگی گزارنے والے جاگیرداروں، دھوکے بازوں،نوسربازوں، مکاروں،اور جھوٹے سیاست کاروں کوووٹ دے کرانہیں ملک پر مسلط کرتے ہوں اوربار بارایسے ہی ظالموں کوملک وقوم پر مسلط کرکے َاجتماعی حماقت کے مرتکب ہوتے ہوںتویہی جہالت ہے۔پاکستان اس وقت جس کرب سے گزررہا ہے غور کریں توصاف طور پرپتاچل جاتا ہے کہ اسی جہالیت کا سارا کیا دھرا ہے ۔ اگر آج پاکستان کاغریب طبقہ رورہا ہے اورپیٹ رہاہے لیکن وہ اپنی ادائوں،اپنے کرداروعمل کی طرف پرتوجہ دے اور اپنے اعمال کامحاسبہ کرے کہ دھوکے باز ،مکار سیاست کاروں کو کرسی اقتدار پر بٹھانے میں اس غریب عوام کا کتنا بڑاکردار ہے ۔ عصرموجود میں بھی کئی حوالوں اورکئی طریقوں سے زمانہ جاہلیت کی سی جہل اور ہوس پرستانہ درندگی، رسوم اور عقائد و نظریات ، شرک، والدین کے ساتھ نیکی نہ کرنا، غربت اور فقر کے خوف سے اولاد کو قتل کرنا، زنا،بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا، شراب نوشی، ربا خواری، عورت کی تذلیل و تحقیر،جس سے قرآن مجید نے بچنے کی تاکید فرمائی پائے جاتے ہیں۔ دراصل جہل پوری انسانی معاشرے کودرندوں کے معاشرے میں بدل دیتاہے چنانچہ خلیفہ چہارم سیدنا علی کے منقول اقوال ہیں کہ جہل، زندوںکو مردہ اور بدبختوں کو دوام بخشتا ہے۔ ،جہالت موت ہے اور سستی فنا ہے، جاہل مردہ ہوتا ہے چاہے زندہ ہی کیوں نہ ہو۔جو شخص عقل کو گنوا دیتا ہے، ذلت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ کتنے ہی معزز افراد کو جہالت نے ذلیل کر دیا۔ جہالت کی ذلت، عظیم ترین ذلت ہے۔ پاکستانی مملکت کی سرحد ں کی حفاظت اوردشمنان پاکستان کوچنے چبانے پربھرپورتوجہ مرکوز رکھتے اوراس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے افواج کے مورال کوکبھی گرنے نہ دیتے تو ملک کی جبین پر ظفر مندی کا سنہرا لفظ ہمیشہ لکھا نظر آتا۔ اگرجج اپنے آپ کوحقیقی معنوں میں منصف سمجھ کرملک میں صرف اورصرف قانون کی بالادستی اورقانون کی حکمرانی قائم کرنے پرایمان رکھتے ہوئے بغیر لغزش کے انصاف کے ترازوں کوقائم رہنے دیتے تواس ملک کاخون چوسنے والے عیاش حکمرانوں کوکبھی اقتدار نصیب نہ ہوتا اوریہاں بالائی سطح کے چوروں ،ڈھاکہ زنوں ،رہزنوں،ظالموں کاخاتمہ ہوجاتا ۔ یہ طے ہے کہ جس ملک میں کچھ چنیدہ لوگوں کے سواعوام الناس کے لئے انصاف اورمساوات ناپید ہواس ملک کے عوام کی حالت ہمیشہ غیرہوتی ہے ۔واضح رہے کہ ریاست کے شہری انصاف ،مساوات کے سائے میںزندگی گزارتے ہوں تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ ٭٭٭٭٭