رات کے آٹھ بجے تھے جب ہم سبی کے لیے عازم سفر ہوئے ۔ ڈیرہ اللہ یار سے یوں تو ہمیں دو گھنٹے لگنے تھے لیکن اُس وقت حالات مختلف تھے۔ اندازہ نہیں تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہم بہت پچھتانے والے تھے۔راستے میں اگرچہ کہیں کہیں سڑک پر تھوڑا بہت پانی موجود تھا لیکن بس اتنا ہی کہ موٹر سائیکل سوار کو بھی وہاں سے گزرنے میں زیادہ دشواری نہ ہوتی۔ نوتال سے ہوتے ہوئے ہم نے بختیار آبادعبور کر لیا تو سبی محض ایک گھنٹے سے بھی کم ڈرائیو پر رہ گیاتھا۔ بختیار آباد سے نکلتے ہی ہمیں سڑک پر تھوڑا پانی دکھائی دیا جسے ہم نے ویسا ہی جانا جیسا ہم راستے میں متعدد مقامات پر چھوڑتے آئے تھے ۔ ڈرائیور نے گاڑی پانی میں اتار دی۔ چند منٹ میں محسوس ہوا کہ پانی کی سطح بلند اور رفتار تیز ہو رہی ہے۔ ڈرائیور نے خطرہ بھانپتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی رفتار اتنی تیز ہو چکی تھی جو خوف پیدا کر دینے کے لیے کافی تھی۔ سڑک کی نشاندہی مشکل ہونے لگی ۔گاڑی روک کر واپس موڑنے کا خطرہ ہرگز مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔ دریائے ناڑی سے دو لاکھ اٹھارہ ہزار کیوسک کا ریلہ گزرتے ہوئے اس مقام کے نشیبی ہونے کے باعث باہر آ گیا تھااور بائیں سے دائیں اس طرح بہہ رہا تھا کہ سڑک اس میں گم ہو گئی تھی۔ڈرائیور کے لیے سب سے بڑا چیلنج خود کو سڑک سے اترنے سے بچانا ، اپنی سمت سیدھی رکھنا اور پانی کے بہائو کے مطابق اپنی رفتار کو ایڈجسٹ کرنا تھا۔ ہمارے آگے بلوچستان کی ایک سرکاری گاڑی بھی پانی میںاپنا راستہ تلاش کر رہی تھی۔ ہم اس وقت ایک ہی امید لگا سکتے تھے کہ جلد از جلد اس پانی سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ خوف مسلسل رگوں میں اتر رہا تھا ، جان اُس وقت حلق میں آ گئی جب ہمارے سامنے چلنے والی سرکاری فور بائے فور جیپ پانی کے بہائو کا سامنا نہ کر سکی اور سڑک سے اتر کر کچے میں پھنس گئی۔ اب یہ گاڑی آدھی پانی میں تھی۔ ہمارے اوسان خطا ہو گئے ۔ ہمارے علاوہ دور دور تک کوئی دوسری گاڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔پھنسی ہوئی گاڑی کے مسافروں کو وہاں چھوڑ کر جانا غیر انسانی حرکت ہوتی۔ہماری گاڑی میں تین افراد سوار تھے۔ ڈرائیور،میں اورکوئٹہ کے بیوروچیف خلیل احمد۔ ہم نے شور مچا کر پھنس جانے والی گاڑی کے مسافروں کو اپنی گاڑی میں منتقل ہونے کا کہا۔باقی تین افراد تو ہمارے گاڑی میں منتقل ہو گئے لیکن ڈرائیور سرکاری گاڑی کو بہہ جانے کے لیے چھوڑ کر جانے کو تیار نہ تھا۔ ہمارے اصرار پر اس نے اپنی گاڑی چھوڑی اور ہماری جیپ کے پچھلے کھلے حصے میں سوار ہو گیا۔ پانی تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا اور سڑک تھی کہ دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھی۔ کچھ لوگوں سے فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ مٹھری کے مقام پر آدھے کلومیٹر کی خشکی ہے مگر اس کے بعد پھر سڑک پر پانی ہے۔ مٹھری اب بھی وہاں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا دس بارہ کلومیٹر کا یہ سفر سیکڑوں کلومیٹر پر محیط ہو گیا ہے۔ اللہ اللہ کرتے مٹھری پہنچے تو ستر اسی لوگ اور چند گاڑیاں وہاں پہلے سے پھنسی ہوئی تھیں۔ حالات کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ پچھلے آدھے گھنٹے میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہوئی ہے اوراب آدھے کلو میٹر کی خشکی بھی نہیں بچی۔ بس ایک چوک سا تھا جو ذرا سا اونچا ہونے کے باعث اب تک زیر آب نہ آیا تھا۔لیکن جس حساب سے پانی کی سطح بلند ہو رہی تھی صاف نظر آتا تھا کہ اگلے ایک گھنٹے میں یہ تھوڑی سے خشکی بھی ختم ہو جائے گی۔ مسلسل بلند ہوتا پانی لوگوںکے لیے خوف کی علامت بنا ہوا تھا۔ ہم نے سبی فون کر کے معلوم کیا کہ یہ پانی کہاں تک ہے ۔پتہ چلا کہ ٹول پلازہ سے دو کلومیٹر پہلے تک سڑک پر پانی ہے ۔ ٹول پلازہ مٹھری سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ گویا ہمیں چار سے پانچ کلومیٹر مزید پانی سے گزر کر محفوظ مقام پر پہنچنا تھا۔ وہاں کھڑے رہتے تو پانی کی سطح بلند ہونے کا خدشہ تھا۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد چار کلومیٹر کا یہ ٹکڑا عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں محصور پندرہ کے قریب لوگ ہم نے اپنی جیپ کے پچھلے حصے میں سوار کر لیے۔ اس سے ایک تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا ممکن ہوا ۔ دوسراگاڑی میں وزن اتنا زیادہ ہو گیا کہ پانی کے لیے گاڑی کو بہا لے جانا آسان نہ رہا۔ گاڑی میں سوار سبھی لوگ باآوازبلند کلمہ طیبہ اور مقدس آیات کا ورد کر رہے تھے۔ میں ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میں نے شروع ہی میں مشاہدہ کیا کہ دائیں جانب جہاں سڑک ختم ہوتی تھی وہاں پانی ہلکا سا ابھار بناتا تھا۔لہذا دائیں جانب سے تو اندازہ ہو رہا تھا کہ سڑک کی حد کیا ہے ۔ بائیں جانب سڑک سے چار فٹ پیچھے کہیں کہیں درخت لگے ہوئے تھے اس سے اندازہ ہوتا تھا کے ان درختوں کے پیچھے گہری اور خطرناک جگہیں ہو سکتی تھیں۔ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہ تھی کہ یہ درخت ایک سیدھ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لہذا احتیاط کے پیش نظر گاڑی کودائیں جانب پانی کے ابھار سے ذرا ہٹ کے چلانا ہی نسبتا محفوظ طریقہ تھا۔ اس کے باوجود کہیں کہیں پانی کا بہائو اتنا تیز ہو جاتا کہ گاڑی اپنی سیدھ سے ہٹ کر ایک جانب کو لڑھک جاتی۔ کلموں کاورد کرتے ہم جیسے تیسے سبی پہنچے تو سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے۔ خوف کے آثاراب تک چہروں پر عیاں تھے۔ وہ سرکاری ڈرائیور سب سے زیادہ مغموم تھا جو اپنی گاڑی پانی کے حوالے کر کے چلا آیا تھا۔ہم مگر اسے جان بچ جانے پر شکر ادا کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حماقت سر زد ہو گئی، کچھ کا خیال تھا کہ رات کو سفر ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کچھ کی رائے میں تھوڑا پانی دیکھ کر بھی پیچھے پلٹ جانا چاہیے تھا۔ خیر اللہ نے کرم کیا اور ہم بحفاظت منزل پر پہنچے۔ اس سے یہ اندازہ ضرور ہوا کہ جو بیچارے پانی کے بے رحم موجوں کا شکار ہو کر جان سے گئے آخری لمحات میں ان پر کیا گزری ہو گی۔انہوں نے کیسے کیسے ہاتھ پائوں مارے ہوں گے اور جان بچانے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہوں گے۔ ہم میں اور ان میں فرق بس یہ تھا کہ ہم جان بچانے میں کامیاب رہے اور وہ بیچارے یہ جنگ ہار گئے۔