روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا میرے پیارے قارئین !اس سے پہلے کہ میں آپ کو اپنے کان درد اور اس کے علاج کا دلچسپ واقعہ سنائوں‘ ذرا سی بات بلاول کے حوالے سے ہو جائے کہ وہ ان دنوں خبروں میں بہت نمایاں ہیں ان کی بات میں کوئی طرحدار پہلو ہوتا ہے جو کشش رکھتا ہے۔ مگر آج ہم اس پر اداس ہیں طالبان کے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان نے ٹویٹر پر بلاول کو قتل کی دھمکی دی ہے۔ جس پر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو بھی رگڑا لگا دیا ہے کہ ان کا ہاتھ بھی اس میں ہے اور وہ اور یہ سب بھائی بھائی ہیں۔ دھمکی تو غلط ہے ہی مگر ردعمل اس سے بھی زیادہ غلط ہے کہ طالبان تو کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ اصل میں بات کچھ اور ہے یہ بھی درست ہے کہ جب بھی زرداری اینڈ پارٹی کے احتساب کی بات چھڑتی ہے تو انہیں اٹھارویں ترمیم یاد آ جاتی ہے اب ایک اور بہانہ ان کے ہاتھ آ گیا۔ اس ردعمل میں مولا بخش چانڈیو نے ایک اور مزیدار بات کر دی کہ دوسری پارٹیوں کے چور پی ٹی آئی میں آ کر کیسے فرشتے ہو جاتے ہیں۔ یہ سوال گندم جواب چنے والی بات ہے مگر ہے دلچسپ کہ مولا بخش چانڈیو اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دوسری جماعتوں میں چور ہیں اور وہی وقت آنے پر نکل کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ ویسے یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ لیکن ایسے لگتا ہے چور صرف وہی ہوتے ہیں جو پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جاتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں آ کر فرشتے ہو گئے وہاں بھی یہ چور وہی کام کرتے ہیں کہ ان کو اور کام تو آتا ہی نہیں ہے۔ ویسے یہ دلچسپ بات ہے کہ پارٹی کے چور تو ایک طرف رہ گئے یہاں تو مینڈیٹ تک چوری ہوتارہاہے اور جمہوریت بھی چوری چوری کہیں اور اکھیاں لگا لیتی ہے: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ جس کے لئے میں نے آپ سے دلچسپ واقعہ کا وعدہ آغاز میں کیا تھا۔ چلتے چلتے میں ایک معتبر آدمی سلیم اختر کا حوالہ دیتا چلوں کہ انہوں نے پنشن والوں کی نمائندگی کرتے ہوئے زور دار طریقے سے ہمیں کہا ہے کہ پنشن والوں کے لئے تو خدارا کچھ لکھیں کہ ان کی پنشن بھی نہیں بڑھائی گئی اور وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ مہنگائی سے پیدا ہونے والے خسارے کو وہ کوئی اور کام کر کے پورا کر سکیں ویسے واقعتاً یہ بات بہت ہی غور طلب ہے وہ تو پنشن پر بیٹھے ہیں۔جو کچھ سرکاری ملازمین کے ساتھ ہونے جا رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ میرے کالم پر اتنا ریسپانس آیا کہ عدیم ہاشمی یاد آ گیا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر چوکے پر چوکا لگانے کے ارادے ہیں۔ پہلے مدت ملازمت 55سال اور پنشن کی بندش کی بات ہوئی اور اب ان کی انکریمنٹ گول کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کوشش ان کی ہے کہ بیسک نہ بڑھنے پائے۔ چلیے وہ دلچسپ واقعہ بیان کیے دیتے ہیں کہ میرے کان میں شدید درد تھا اور میرے ہم زلف میری تیماری داری کو آئے تو ساتھ ایک نسخہ بھی لائے۔ فرمانے لگے کہ یہ درد تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ چٹکی بجاتے ہی ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے ایک چمچ منگوایا اس میں سرسوں کا تیل ڈالا اس کے اندر کوئی لونگ شونگ رکھا اور اسے چولہے پر گرم کرنا شروع کر دیا خوب گرم کرنے کے بعد انہوں نے وہ تیل میرے کان میں ڈالنا چاہا تو وہ تپتا ہوا چمچ بھی کان کو لگا دیا۔ میری تو جان نکل گئی۔ کان کی نکل گئی۔ وہ سوری سوری کہتے گئے مگر کام تو سارا ہو چکا تھا۔ لیکن ان کی بات سچ نکلی کہ کان کا درد تو سچ مچ بالکل ختم ہو گیا مجھے تو کان کے باہر کے حصے کی پڑ گئی۔ بس کچھ اسی طرح کا علاج حکومت سرکاری ملازمین کا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگ رہی ہیں کہ جس پر خود عمران خاں سمیت کئی مشیران و وزیران کی عمریں لکھی گئی ہیں۔ ایک مشیر تو 80سال کا ہے باقی ستر سال سے اوپر ہیں۔ اوپر یہ ردعمل کے طور پر حقائق سامنے آ رہے ہیں یہ لوگ جو بڑھاپے میں بھی مشیری کر رہے ہیں یہ کوئی سرکاری ملازم تھوڑی ہیں یہ تو ذاتی ملازم ہیں۔ یہ الگ بات کہ وہ تنخواہیں سرکار سے لے رہے ہیں پھر یہ بھی تو دیکھیں کہ مشاورت تو ایک تجربہ کار بوڑھا ہی دے سکتا ہے۔ ہاں یہ بات قابل اعتراض ہے کہ بوڑھے حاضر سروس جوانوں کے خلاف مشورے دے رہے ہیں ان کے سامنے پچاس پچپن کا جوان ہی تو ہے۔ یہ ردعمل بڑھتا جا رہا ہے اور ردعمل دینے والے مقدس اداروں کو بھی اس لڑائی میں کھینچ لائے ہیں۔ ویسے ایک بات پر میں ابھی تک پریشان ہوں کہ میں نے ایک بیورو کریٹ سے اس معاملے بات کی کہ کیا واقعتاً یہ سب کچھ ہونے جا رہا ہے اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا مسکرانے لگا اور پھر مسکراتا ہی گیا۔ مجھے ابن انشا یاد آ گئے کہ ہم چپ رہے‘ ہم ہنس دیے منظور تھا پردہ ترا۔ آئی ایم ایف نے اگر انہیں بھی ہاتھ ڈال لیا تو کیا بنے گا۔ آخر میں دلخراش معاملے کا تذکرہ ضروری ہے کہ جس کا تذکرہ سعدیہ قریشی نے بارہا کیا اور ہم نے تائید میں لکھا وہ افشاں لطیف والا سانحہ کہ اسے یتیم بچوں کو بچانے کے جرم میں اذیتوں میں ڈال دیا گیا اس بہادر اور باکردار خاتون نے نتائج کی پروا کیے بغیر یتیم بچیوں کے کاشانہ کو کاشانہ بنانے کے لئے بااثرلوگوں سے ٹکر لی جو ناپاک ارادے رکھتے تھے۔میں تفصیل میں نہیں جا سکتا مگر یہ کیا کہ اس کے گھر کی بجلی اور پانی بند کر دیا جائے اور پھر اس کے گھر کو آگ لگوا دی جائے۔ سخت تکلیف دہ بات یہ کہ اس پر اب تک کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ عثمان بزدار صاحب تو مشرقی روایات رکھنے والے غیرت مند آدمی ہیں۔ پھر ہمارے جج صاحبان کی نظر سے یہ معاملہ نہیں گزرا۔ بندہ حیرت سے پاگل ہونے لگتا ہے۔ کم از کم جماعت اسلامی ہی اس کا نوٹس لے لیتی کہ کاشانہ سے یتیم بچیوں کو کورونا کی آڑ میں کہاں شفٹ کیا گیا ہے۔ اپنا دوست ازکار ازہر درانی یاد آ گیا: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی مگر کیا کریں۔ ایک بات عدیم ہاشمی نے کی تھی: مصالحت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے