مکرمی ! گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے کئی شہروں میں غیر اخلاقی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں خطرناک حد تک اضافہ نظرآرہا ہے۔ ان اخلاق باختہ حرکات میں مجرم جس ڈھٹائی کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس سے شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر ایسی سرگرمیوں کا گڑھ بنتے جا رہے ہیں۔ کورنگی کا واقعہ عوام کے سامنے پیش آیا اور لوگوں نے فلمایا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں گزشتہ چند سال سے جرائم کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سی پی ایل سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2023ء میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے 56 ہزارسے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں چوری، کار چوری اور موٹر سائیکل چھیننے کے واقعات شامل ہیں۔ اسٹریٹ کرائم کے علاوہ، کراچی دیگر سنگین جرائم جیسے کہ قتل، جنسی زیادتی بھی لپیٹ میں ہے۔ ہماری اقدار اور اخلاقیات کو ختم کیا جارہا ہے اور ان کی جگہ بے حسی اور خودغرضی کی ثقافت نے لے لی ہے۔ اس بحران کی وجوہات پیچیدہ بھی ہیں اور بہت سی ہیں۔ یہ متعدد عوامل کی پیداوار ہے، جس میں معاشی اور سماجی عدم مساوات، روایتی خاندانی ڈھانچے کا ٹوٹنا اور حکومت اور اداروں پر اعتماد کا ختم ہوجانا شامل ہے۔ ان سب باتوں پر اہل علم کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ جرائم کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو غربت اور بے روزگاری جیسی جرائم کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے کے لیے بھی کام کرنا چاہیے۔ اس حالات میں لوگوں کوبھی چوکس رہنا اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع پولیس کو دینا اپنا فرض سمجھنا چاہئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا اور انہیں ایسی کوئی بھی معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے جو مجرموں کو پکڑنے میں مددگار ثابت ہو۔اسی صورت میں ہم مل کر اپنے اپنے شہرکو جرائم پیشہ افراد سے محفوظ ومامن شہر بنا سکتے ہیں۔ (منورصدیقی، لاہور)