لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی جل گئے سایہ دیوار تک آتے آتے کیا کریں سب جتن کر کے دیکھ لئے دور فتن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ پھر ایک موہوم سی امید پہ ہم جیتے ہیں یہ بھی مان لیا کہ برداشت کرنے اور صبر کرنے سے ہماری قویٰ مضبوط ہوتے ہیں۔ اگرچہ غم بھی ضروری ہے زندگی کے لئے مگر یہ کیا کہ ترستے رہیں خوشی کے لئے۔ ہماری ترجیحات میں تو اولین جگہ پر غریب لوگ اور سرکاری ملازمین ہیں تاجر تو اشیائے صرف میں مہنگائی کے حساب سے اضافہ کر دے گا بڑا تاجر تو بڑے بل پر سیلز ٹیکس عائد کرتا ہے اور وہ حکومت کے نام پر گڑ بڑ کرتا ہے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے بے چارہ تنخواہ دار تو رو بھی نہیں سکتا اور کہاں لے جائو گے لگ گئے ہم دیوار سے بھی۔ سب لوگ نابینا تو نہیں کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ بجٹ آنے کے بعد ہمارے خدشات اور توقعات کے عین مطابق حکومت نے دی گئی مراعات یعنی 10فیصد تنخواہوں میں اضافہ کس طرح برابر کرنا شروع کر دیا بلکہ سرکاری ملازمین کو لینے کے دینے پڑ گئے۔سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور تکلیف دہ خبر یہ ہے کہ حکومت کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر گندم درآمد نہ کی گئی تو آٹا ضرور مہنگا ہو گا: دامن چشم میں تارہ نہ جگنو کوئی دیکھ اے دوست مری بے سروسامانی کو اسمبلی میں باتیں ہوتی ہیں گدھوں کی اور بندروں کی۔ میں اس کے خلاف بھی نہیں کہ تھوڑی سی شرارت اور چھیڑ چھاڑ کر لینی چاہیے۔ بڑی چالاکی کے ساتھ وقت گزارا جا رہا ہے۔ ملک سے زیادہ اپنی انا اور اپنے دوستوں کے مفادات مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکومتی ترجمان خوش آمدانہ بیان دیتے ہیںکہ خان صاحب کی قیادت میں معیشت کے بحال ہونے پر اپوزیشن بری طرح پریشان ہے کم و بیش سب کا یہی کہنا ہے کہ معاشی ترقی نے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ذرا سا سوچا تو بات ان کی ٹھیک ہے اپوزیشن ہی کیا عوام بھی اس ترقی پر پریشاں بلکہ حیران ہے۔ مجھے تو اس وقت پریشانی ہوئی کہ اپنی پسند کا فروٹ الیچی لینے گیا تو پتہ چلا کہ الیچی ساڑھے تین صد روپے کلو ہے جس کو شک ہو خود جا کر بازار سے معلوم کر لے۔ آڑو ڈیڑھ سو روپے کلو۔ ہر دانشور یہی بات کہہ رہا تھا کہ حکومتی بنچز کو اپوزیشن کی بات سننا چاہیے تھی۔ وہ جو بات تونے سنی نہیں مری عمر بھر کا ریاض تھا۔ وہی ان سنی اب 92نیوز کے صفحہ اول پر دیکھی جا سکتی ہے کہ ریکارڈ مہنگائی50لاکھ بے روزگار 13ہزار روپے قرضہ کارکردگی صفر اس کے جواب میں وفاقی وزراء کی طرف سے کورس میں ایک ہی جواب اسحق ڈار کی غلطیاں بھگت رہے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مہنگائی اور قرض کے الزامات تو آپ مان رہے ہیں آپ تو آنے والوں کے لئے بھی جواز فراہم کر رہے ہیں۔ کیسی مزے کی بات ہے کہ شماریات اور عشاریوں کے تحت تو مہنگائی میں کمی آ رہی ہے شاید وہ شے جو 50سے ایک صد 10روپے ہو گئی تو وہ 10روپے کم ہو گئے ہوں۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے ایک اور وزیر فخر کر رہے تھے کہ مہنگائی بتا رہی ہے کہ لوگوں کی قوت خرید بڑھتی ہے۔ : بات ایسی ہے بتانے کی نہیں دنیا کو روپڑے تو ہم بھی خریدار تک آتے آتے میں بھی کیا ہوں کہ اتنی سنجیدگی سے بجٹ اور مابعد بجٹ کے مسائل لے کر بیٹھ گیا ،کیا کروں موجودہ صورت حال کو اپنے قارئین کے سامنے رکھنا بھی تو ہوتا ہے۔ ایک بات میں واضح کر دوں کہ مقصد کوئی حکومت دشمنی نہیں ان کے اچھے اقدام پر ہم فوراً رسپانس کرتے ہیں۔ ابھی دیکھیے کہ خاں صاحب نے امریکہ کو اڈے دینے کے حوالے سے انٹرویو دیتے ہوئے کیا ابسولوٹیلی ناٹ Absolutely notکہا تو ہم اندر تک خوش ہو گئے اور انہیں بھر پور داد قطعہ لکھ کر دی۔ اس حمیت اور غیرت کی تو ضرورت ہے۔ یہ الگ بات کہ لوگ اس پر بھی تنقید کرنے بیٹھ گئے کہ اڈے دینے کا فیصلہ وزیر اعظم نہیں کرتا۔ چلیے اگر یہ بات بھی مان لی جائے تو غلط کیا آپ کے بقول تو پھر یہ پیغام کس نے دیا ہے اسی طرح جس طرح ایٹمی دھماکوں کی اجازت مل گئی تھی۔ وطن کی سلامتی کے لئے جو بھی آگے آئے گا قوم اس کے لئے جان کی بازی لگا دے گی مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ خان نے یہ اعلان ان کے پریشر کے باعث کیا ہم یہ بھی مانے لیتے ہیں۔ پھر بھی خان کی تعریف کہ انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اب آخر میں ذرا بلاول کے شگفتہ خطاب کا تذکرہ ہو جائے کہ ہمیں بلاول اس سمے بہت پیارے لگے کہ جب وہ خان صاحب کو حکومت کی واحد اور انوکھی کامیابی پر مبارک دے رہے تھے کہ اس بات پر حکومت مبارک کی مستحق ہے کہ کہ ان کے عہد میں گدھوں کی خوب افزائش ہوئی ہے اور پورے ایک لاکھ گدھے بڑھ گئے ہیں تاہم انہوں نے گھوڑوں کے بارے میں کہا کہ وہ اتنے ہی ہیں۔ گدھوں کی بات تو ایک طرف کہ وہ کھائے نہیں گئے تو بڑھتے گئے۔یہ جو گھوڑے ہیں ان کا تذکرہ بی بی کے دور میں بھی رہا کہ جو مربع کھاتے تھے اور پھر ہارس ٹریڈنگ میں تو واقعتاً گھوڑے کبھی وہ بک کر ایک طرف چلے جاتے ہیں تو کبھی دوسری طرف اور اب کے تو وہ تیسری قوت کے پاس ہیں۔ واقعتاً تعداد وہی ہے ویسے بلاول اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ ان کی تقریر کو پی ٹی وی میں سنسر کر کے دکھایا گیا ہے۔ میرا تو بلاول سے ایک سوال ہے کہ وہ بہت پر پرزے نکال رہے ہیں اور ہمیں متاثر بھی کر رہے ہیں۔ مگر سندھ اسمبلی میں جو کچھ نصرت کہتی ہیں کیا آپ نے اس کا بھی کوئی جواب دیا۔ کیا آپ اپنے والد محترم کے بچھائے ہوئے کانٹے صاف کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات نصرت نے یہ بتائی کہ سندھ حکومت یتیموں اور معذوروں کا کوٹہ بھی کھاگئی۔ خوشامدیوں پر اس نے کیا طوطے بولیں گے طوطے بولیں گے۔ آخر میں محمد عباس مرزا کا ایک بہت: توں ڈگیں تے تینوں پنج سو چکدے نیں میں ڈگاں تے اوہو،حالے مریا نہیں