0ء کی دہائی میں میرے چاچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (حال مقیم اسلام آباد) نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کندھوں پر ڈال کر ہاتھ پکڑتے ہوئے محلہ مسلم پیر کی مرکزی درسگاہ میں پہلی جماعت میں درج کروایا۔ گو کہ امتداد زمانہ نے اکثر یادیں دھندلی کر دیں ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کروایا، وہ ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔ مگر بس د و سال بعد ہی اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہوئے ایکارڈ کے بعد جب آخرالذکر وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، تو اسکول مقفل کر دیئے گئے اور مجھ سمیت بیس ہزار طلبہ کو سرکاری اسکولوں کی پناہ میں آنا پڑا۔ اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے حملوںاور عدالت کے ایک فیصلہ سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون 1975ء کو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ تازہ تازہ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی عائد کی، جماعت اسلامی اور اسکے اداروں کو مقفل کردیا۔ جماعت تو ان دنوں انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اسکی نمائندگی بھی تھی۔ اندرا ۔عبداللہ ایکارڈ کی مخالفت درج کروانے کیلئے جماعت نے گاندر بل حلقہ سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمد اشرف صحرائی کو بطور امیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف رائے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔ صحرائی کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پوہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدو کوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ نکالی گئی۔ حا ل ہی میں جماعت پر جو پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ایک گراونڈ ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے کوئی! پلوامہ میں سیکورٹی دستوں کے کانوائے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ مگر وہاں بھی آپشن اب محدود ہیں۔ لیڈورں کو ہاوٗس ارسٹ میں رکھنے ، فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جار رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کرایا جائیگا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے راہنما محمد یٰسین ملک کوپبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کے خلاف 1990ء کا ایک کیس دوبارہ کھولنے کی تیاری ہے، جس میں ان پر الزام ہے کہ بطور جے کے ایل ایف کمانڈر کے انہوں نے بھارتی فضائیہ کے کئی اہلکاروں کومبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ میر واعظ مولوی عمر فاروق کو نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی نے دفعہ 121یعنی ملک کے خلاف بغاوت اور جنگ چھیڑنے جیسی دیگر دفعات کے تحت نوٹس جاری کیا ہے اور لگتا ہے کہ ان کو بھی جلد ہی پابند سلاسل کیا جائیگا۔ سید علی گیلانی پچھلے نو سالوں سے مسلسل ہائوس ارسٹ ہیں۔ پچھلے ہفتہ سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایئر پورٹ روڑ پر جب ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کئے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہلکار باہر کھڑے ، اندر جانے کیلئے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ گو کہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتے ہیں۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔ ان کے دفتر کے افراد اور رفقاء زیر حراست ہیں۔ گھر کا نوکر چند ماہ قبل گائوں گیا تھا، واپسی پر اسکو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ اسی کڑی کے تحت جماعت اسلامی جموں کشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی سمیت 400 کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کئے گئے ہیں۔کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے گھر بھی سیل کئے گئے ہیں ۔ رات کے اندھیرے میں مکینوں ، جن میں خواتین و بچے شامل ہیںبے دخل کرکے گھر سیل کئے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلائے عذاب کرنا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد حراست میں یا روپوش ہوں۔ 1977ئمیں جب جماعت پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کیلئے اسنے فلاح عام ٹرسٹ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست 350 اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ تقریباً اتنے ہی اسکول بالواسط ٹرسٹ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ یعنی الومنیہ کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برسا ہے۔ تقریباً 300الومنیہ نے ایک مشترکہ یاداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دور دراز کے دیہاتوں میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسرز شامل ہیں جو فی الوقت نامور اداروں جیسے ہاروڑ یونیورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکہ کے طبی تحقیق کے اداروں، بھارت کے انڈین انسٹیچوٹ آف ٹیکنالوجی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، علیگڈھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت اور لگن بھی شامل ہے۔اس یاداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو فی الوقت ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف سعی کرتے ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہیں۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد ان اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یاداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 1990ئمیں بھی اس وقت کے گورنر جگموہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی ۔ مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ان کو بحال کر دیا۔ ان الومنیہ کا کہنا ہے کہ آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے۔ (جاری)