ہفتہ رفتہ میں کئی واقعات ہوئے۔ مثلاً کابینہ نے اہم اقتصادی فیصلوں کی منظوری دی جن میں سرفہرست وزیراعظم کے طیارے کی تزئین و مرمت کے لیے 45 کروڑ روپے مخصوص کرنے کا فیصلہ تھا۔ پچاس کروڑ کی منظوری بھی دی جا سکتی تھی لیکن اس نے سادگی اور بچت مہم کا سنگ میل بھی تو گاڑنا تھا، اس لیے صرف 45 کروڑ منظور کئے۔ اس ہفتے 23 مارچ تھی گزرا۔ اس روز قرار داد لاہور منظور ہوئی تھی جس کے سولہ برس بعد پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری کے بعد اسے یوم جمہوریہ قرار دیا گیا۔ یہ دن صرف دو برس منایا گیا، تیسرے برس ایوب خان نے ملک فتح کرلیا۔ اسے جمہور اور جمہوریت جیسے الفاظ سے ڈر لگتا تھا چنانچہ اس نے ’’یوم جمہوریہ‘‘ پر پابندی لگا کر اسے نیا نام دے دیا۔ تب سے کسی کو جمہور کی یاد ہے نہ جمہوریت کی۔ اسی ہفتے صدر مملکت نے خطاب کیا۔ انہوں نے کئی کثرت سے زیر استعمال اردو الفاظ کے درست ہجے بیان کئے، نئی با محاورہ زبان متعارف کرائی۔ پوری تقریر ہی ’’اردو کے معلیٰ‘‘ کا نمونہ تھی۔ ملک کے بڑے عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا، وہ محفوظ رہے البتہ ان کے دو محافظ شہید ہو گئے، خدا نہ کرے یہ واقعہ کسی نئی ’’گریٹ گیم‘‘ کا ابتدائیہ ہو۔ ملک ایسی گریٹ گیمز بہت بار دیکھ چکا ہے، مزید ذوق تماشا نہیں رہا۔ ایک اور قابل ذکر واقعہ جماعت اسلامی کے امیر کا انتخاب تھا۔ محترم سراج الحق کو دوسری بار امانت کا حقدار سمجھا گیا۔ ٭٭٭٭٭ امیر جماعت کے انتخاب پر بعض قلمکاروں کے مضامین لکھے اور اس سوال پر بحث کی کہ جماعت کی سیاست کے لیے کامیابی کے کتنے امکان ہیں؟ سیاست کی کامیابی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ایک بڑے نام، بڑے کام والی شخصیات کی، دوسرے ووٹ بینک کی۔ فی الحال جماعت کے پاس دونوں ہی چیزیں نہیں ہیں۔ بانی جماعت مولانا مودودی نے بڑی شخصیات کی ایک بڑی کھیپ تیار کی تھی۔ وہ لوگ عمر طبعی پوری کر کے اللہ کو پیارے ہو گئے اور ان کی جگہ پر کرنے کوئی نہیں آیا۔ یوں جماعت کو رجال کار کی قحط سالی کاسامنا ہے۔ ووٹ بینک کبھی تھا، پھر برف کے بلاک کی طرح دھوپ میں پگھلتا چلا گیا۔ اب بلاک نہیں رہا، اس کی جگہ ایک ننھا منا گولا سا نظر آتا ہے، دیکھئے کب تک نظر آتا ہے۔ جماعت اپنا عروج 1970ء کی دہائی میں دیکھ چکی اور اسی دہائی میں اس کے زوال کی خشتِ اول بھی رکھی گئی۔ 70ء کے الیکشن میں جماعت نے متحدہ پاکستان سے بیس لاکھ ووٹ حاصل کئے جو عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ تھے۔ اگرچہ سیٹیں اسے اس مناسبت سے نہ مل سکیں، صرف چار، جن کا مخالفوں نے خوب ’’چرچا‘‘ بھی کیا (سندھی محاورہ، چرچا کرنا یعنی مذاق اڑانا۔) چوتھے نمبر پر کونسل مسلم لیگ، پانچویں پر مسلم لیگ قیوم گروپ، چھٹے پر جے یو آئی اور ساتویں پر جے یو پی رہی۔ (بالترتیب 19 ، 14، 13، 12 اور گیارہ لاکھ ووٹ لیے)۔ بیس لاکھ میں سے زیادہ ووٹ مغربی یعنی موجودہ پاکستان سے ملے۔ 1971ء میں یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان بھارت کو دے دیا۔ باقی ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت بنی۔ جماعت کے موثر اپوزیشن کردار کی وجہ سے اس کے ووٹ بینک میں غیر معمولی اضافہ ہوا لیکن یہ عارضی تھا جو بعدازاں نوازشریف لے اڑے۔ جماعت کا اصل ووٹ بینک وہی تھا جو 1970ء میں اسے ملا۔ بھٹو کے دور میں جماعت ریاستی تہذیب کا نشانہ رہی لیکن عوامی سطح پر اس کی طاقت بھی بڑھی، خاص طور سے طلبہ سیاست اور ٹریڈ یونین میں اس کی اجارہ داری ہوگئی۔ اس کا اثرورسوخ ضیاء الحق کی حکومت کے ابتدائی برسوں میں بھی قائم رہا لیکن پھر ضیاء الحق صاحب کی تا زندگی حکمران بننے کے منصوبے کی زد میں جماعت بھی آ گئی۔ اس کی طاقت کے یہ دونوں قلعے مسمار کردیئے گئے۔ ٭٭٭٭٭ زوال کی خشت اول مولانا مرحوم کے بعد امیر کا منصب سنبھالنے والے میاں طفیل محمد نے رکھی۔ انتخابات کے بعد یحییٰ خان اقتدار پارلیمنٹ کو دینے سے منکر ہوگیا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت ہو گئی۔ اس سے پہلے یحییٰ خان میاں طفیل محمد کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنی قزلباشی زلفوں کا اسیر کر چکا تھا۔ اس کی ہدایت پر میاں صاحب نے البدر اور الشمس نامی دو لڑاکا تنظیمیں بنائیں تاکہ یحییٰ کی حکومت ک تحفظ کیا جا سکے۔ یہ اسلام اور جماعت کی آئیڈیالوجی دونوں سے انحراف تھا۔ بانی جماعت کو بہت بڑا شاک لگا۔ انہوں نے فرمایا، ان لوگوں نے (مراد میاں صاحب مرحوم اور ان کے ساتھ تھے) میری عمر بھر کی کمائی برباد کردی۔ جماعت نے ان کی ناراضگی ایک طرف رکھی اور قزلباشی مشیت کو سر آنکھوں پر رکھا۔ ٭٭٭٭٭ یہ دور پھر بھی رکھ رکھائو کا تھا۔ جماعت یحییٰ خان کی اتحادی بنی (اکیلی نہیں دیگر بہت سی جماعتیں بھی اس اتحاد میں اپنی اپنی جگہ شریک تھیں) لیکن بڑی حد تک اپنے خودمختار ہونے کا بھرم بھی رکھا۔ میاں صاحب کے بعد قاضی حسین احمد جماعت میں برسراقتدار آئے، انہوں نے اس بھرم سے بھی نجات حاصل کرلی۔ وہ جہاد کشمیر سے لے کرسیاستدانوں کے احتساب تک، ہر معاملے میں مقتدر اشرافیہ کے بے تیغ سپاہی بن گئے۔ پاک بھارت امن کی کوششیں شروع ہوئیں تو پرویز مشرف کے کہنے پر انہوں نے ’’امن مخالف جہاد‘‘ کیا اور پوری جماعت کو دائو پر لگا دیا۔ جماعت کی زبردست سٹریٹ پاور مقتدر اشرافیہ کے لیے وقف کردی گئی۔ یہ دائو جماعت ہار گئی۔ ہر حلقے سے جماعت کے امیدواروں کے اوسط ووٹ دس، پندرہ اور بیس ہزار ہوا کرتے تھے، پھر یہ چند ہزار رہ گئے اور حالیہ الیکشن میں نوبت سینکڑوں ووٹوں تک پہنچ گئی۔ قاضی صاحب کے بعد منور حسن امیر جماعت بنے جو مقتدر اشرافیہ کے لیے ناقابل قبول تھے۔ سخت کردار کشی کی ابلاغی مہم کا نشانہ بنے۔ ان کے بعد سخت قابل قبول سراج الحق صاحب کی راہ ہموار ہوئی۔ نوازشریف کے خلاف ’’پانامہ ایکشن پلان‘‘ بنا تو تجربہ کار مبصرین نے کہہ دیا کہ اس پلان کے ناکام ہونے کا کوئی خدشہ نہیں۔ فول پروف ہے، سو فیصد کامیاب ہوگا۔ مطلب جماعت اسلامی کو حصہ ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر بھی اس نے ’’فرض کفایہ‘‘ بھرپور انداز میں ادا کیا۔ ایکشن پلان کامیاب ہوا اور خانہ اور انداز چمن نے سارے گل اور ثمر عمران کی جھولی میں ڈال دیئے۔ جماعت کو اجر کی ایک چٹکی نہ ملی۔ بہرحال، محترم دوبارہ امیر بن چکے۔ وقت دعا ہے۔