پاکستان میں سیاست کبھی بھی پٹڑی پر نہیں رہی۔عدم برداشت کی روایت نے جمہوریت کو ہی نہیں بلکہ سماجی ہم آہنگی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اشرافیہ کی تنگ مزاجی اور تختہ یا تختہ کی سوچ نے نہ تو ملک کو کبھی سیاسی استحکام بخشا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کی کوئی مربوط حکمت عملی سامنے آسکی ہے۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اشرافیہ اٹھارویں ترمیم کی صورت میں سیاسی استحکام کے فارمولے (میثاق جمہوریت) پر متفق ہوگئی تھی لیکن اس سیاسی استحکام کا نتیجہ انتشار کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ دس سالہ میثاقی دور میں موقع تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وفاق اور خود مختار صوبوں کے درمیان آنے والی دراڑ کو پر کر نے کی کوشش کی جاتی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ قومی وسائل کی لوٹ مار راستہ روکنے کے لیے احتساب کے عمل کو زیادہ شفاف بنانے کی ضرورت تھی لیکن اس کا گلہ ہی دبا دیا گیا۔وفاق سے منتقل ہونے والے شعبے، جو سماجی ترقی اور انسانی حقوق کی فراہمی سے متعلق تھے، پر آئین سازی کی ضرورت تھی لیکن صوبوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ وسائل تو لے لیے لیکن انکی منصفانہ تقسیم کے طے شدہ فارمولے (خود مختار مقامی حکومتیں ) سے منحرف ہوگئے۔ پائدار ترقی کے عالمی اہداف کے حصول کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا لیکن اشرافیہ کی عدم دلچسپی کے باعث اس سلسلے میں ملنے والے فنڈ یا تو کرپشن کی نذر ہوگئے یا پھر استعمال ہی نہیں ہوسکے۔دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات اشرافیہ کی طبقاتی سیاست پر زور دار تمانچہ تھا لیکن اصلاح احوال کی بجائے میثاقی ٹولہ ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ پر نکل پڑا ہے۔ تختہ اور تختہ کی سوچ اسے کہاں پر لے جائیگی اس کا اندازہ اس کی طبقاتی مفادات کے گرد گھو متی سیاست نے ملکی سلامتی تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اشرافیائی جمہوریت سے منسلک اور موروثی سیاست کی قائل سیاسی پارٹیوں کا اتحاد پاکستانی جمہوری تحریک کی صورت میں قوم کے سامنے ہے اور اسکی قیادت انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ مقصد ملکی معاملات اسی نہج پر چلتے رہیں جہاں پر میثاقی پارٹیاں انہیں چھوڑ کر گئی تھیں۔ اقتدار تو چاہیے لیکن ملک میں احتساب کا مربوط نظام فروغ نہ پاسکے، صوبائی خود مختاری ہو لیکن وسائل اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ ہو پائیں، وفاق سے منتقل ہونے والے شعبہ جات کا بجٹ تو چاہیے لیکن اس کا استعمال کیسے اور کہاں ہو ، صوبوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، ایسے تین نقاط ہیں جن کے گرد اشرافیائی سیاست گھوم رہی ہے۔ پارلیمانی نظام اور مخصوص انتخابی طریقہ کار کی وجہ سے اشرافیہ ملک کے لیے ایسی ہڈی بن گئی ہے جسے نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہے اس سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔یوں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے محدود وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ شہر گندگیسے اٹے پڑے ہیں، صحت ، تعلیم اور صاف پانی ناپید ہے۔ پانی کے وسائل پر اشرافیہ کے قبضے اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسموں کے دورانیے میں فرق، بے وقت کی بارشیں اور سیلابوں کا سارا بوجھ پہلے سے خسارے کا شکار زراعت کا شعبہ اب اٹھانے سے قاصر ہے۔ دالیں اور کوکنگ آئل تو عرصہ ہوا درآمد کیے جارہے تھے اب گندم بھی نایا ب ہوگئی ہے۔ مہنگی توانائی پر چلنے والی صنعت کا سانس اکھڑا ہوا ہے ، بیروزگاری بڑھ گئی اور مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ٹیکسوں کی ترتیب بدل کر یعنی غریب اور متوسط طبقے پر اسکا بوجھ کم کر کے حالات بدلے جاسکتے ہیں لیکن ایسا تو تبدیلی سرکار بھی نہیں کرسکی۔ غیر لچکدار اشیائے ضرورت (کچن آئٹمز، پٹرول وغیرہ) پر محصولات کا انحصار اور انکم ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکامی سول حکومتوں کی ہی نہیں جمہوریت کی ساکھ کو بھی داغدار کردیا ہے۔ ایسے وقت جب سول حکومتوں کو عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے تھا انہیں مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ پارلیمانی سیاسی پارٹیاں آپس میں مل بیٹھنے اور ملک کو وبا اور غذائی عدم تحفظ کے تناظر میں سامنے آنے والے چیلنجوں سے نکالنے کی بجائے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اتحاد اور یگانگت کی ضرورت ہے تو فتنہ اور انتشار کوفروغ دیا جارہا ہے۔ جمہوریت کے سائے میں ہونے والی سیاست بنیادی حقوق کی فراہمی پر مرتکز ہوتی ہے لیکن ایک ناہموار اور طبقاتی طور پر تقسیم معاشرے میں اس کا مطمع نظر طاقت کا حصول بن جاتا ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں یہ طاقت کا توازن بگڑا ہی نہیں بلکہ اشرافیہ کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہوئی ہے۔ تخت یا تختہ کی سیاست اپنے روایتی ہتھیاروں سمیت میدان عمل میں آچکی ہے۔ فریب ، دھوکے اور انتشار کے ذریعے اس جنگ کا پانسہ پلٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملکی اور عالمی حالات کے تقاضوں سے بے پرواہ اشرافیہ کچھ بھی دائو پر لگانے کو تیا ر ہے سوائے اپنے طبقہ جاتی مفادات کے۔ مذہب اورلسانیت کی ڈھال تو اس کے پاس ہے ہی ۔ملک میں بڑھتی بیروزگاری اور مہنگائی نے بھی اسکے حکومت مخالف بیانیے کو کافی تقویت دی ہے۔ لیکن اشرافیائی سیاست کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے پائوں نہیں۔ جھوٹ اور فریب سے ہلڑ بازی ، فتنہ اور فساد کو تو فروغ دیا جاسکتا ہے ، پائدار سیاست نہیں کی جاسکتی ۔عرصہ دراز سے جو مظلومیت کی چادر اوڑھی ہوئی تھی ، پچھلی دو دہائیوں سے اپنے ہی ہاتھوں تار تار کر چکی ہے۔ اگر آپ کو جمہوریت چاہیے لیکن اس کے لوازمات کو پورا کرنے کی آپ میں فطری صلاحیت ہی نہ ہو تو یہ جمہوریت ایک نہ ایک دن آپ کو لے ڈوبتی ہے۔ پچھلے انتخابات نے اگر آپ پر یہ واضح نہیں کیا تو اس وقت کا انتظار کریں جب وفاق میں مقامی حکومتوں کے نظام کو آئین کی روح کے مطابق نافذالعمل کرنے کی جرات پیدا ہو اور عدلیہ بنیادی حقوق کے نفاذ میں یکسو ہوجائے۔۔۔۔ گھونگٹ اولے نہ لک سجنا، میں مشتاق دیدار دی ہاں!