آخر وہ ہمارے حکمران رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطنت برطانیہ میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے ان کی آن بان دیکھی ہے۔ مہذب دنیا کی بہت سی اقدار اور انسانی ترقی کی ابتدا کا سفر بھی اسی سرزمین سے وابستہ تھا۔ سب سے بڑی قدر جمہوریت سے اور برطانیہ کو آج بھی جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ نے جمہوریت کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اس نے ہٹلر سے ٹکڑا کر خود اپنے وجود کو خطرے میں ڈال دیا اور یہ سب جمہوریت کی خاطر کیا۔ سب سے پہلے صنعتی انقلاب سرزمین انگلستان میں آیا جس نے دنیا میں ٹیکنالوجی کے نئے دور کو جنم دیا۔ بے شمار عظمتیں ہیں اس سرزمین کی اور نہ سہی، یہاں شیکسپئر پیدا ہوا جس نے دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ جی، اسی برطانیہ کی بات کر رہا ہوں جس کے بارے آج یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ بیس سال بھی نکال جاتے تو بڑی غنیمت ہے۔ شاید اس عہد میں یہ ایک بہت خوبصورت مطالعہ ہو گا کہ قومیں کس طرح ٹوٹتی ہیں۔ جمہوریت اپنے عروج پر ہے۔ اسے جمہوریت کی ماں کہتے ہیں اور یہ ملک ٹوٹ رہا ہے تو کسی حملہ آور کی طاقت سے نہیں یا یہاں کی حکومت پر قبضہ کر کے نہیں، بلکہ عوام ہی کی طاقت سے ڈھیرہو رہا ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ انسانی ذہن کی گہرائیوں میں اترنے والا دنیا کا پہلا نفسیات دان فرائڈ خوامخواہ تو نہ کہتا تھا کہ جمہوریت اپنے اندر تباہ کاریوں کے عناصر رکھتی ہے۔ اقبال روتا تھا کہ دو سو گدھے ایک انسانی ذہن کے برابر نہیں ہو سکتے۔ چرچل یہاں آ کر رک جاتا تھا کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے، مگر جمہوریت کے اس دیس میں جمہوری طریقے ہی سے ملک بچتا دکھائی نہیں دے رہا۔ میں نے صرف ایک آدھ بار تجزیہ کرنے کے بعد دم سادھ لی تھی کہ یہ بریگزٹ ہے کیا۔ جب اس صدی کا آغاز ہوا تو اس چرچے کے ساتھ ہوا کہ اب دنیا سمیٹی جائے گی۔ یورپ ایک ہو رہا ہے، برطانیہ بھی اس سے باہر نہیں ہے، ہاں اس کے کچھ نخرے ہیں، مثلاً وہ اپنا پائونڈ قربان نہیں کرنا چاہتا۔ وہ یورپ کی ایک کرنسی کے تصور سے الگ رہے گا۔ دنیا میں جس طرح کی ہوا چل رہی تھی۔ برطانیہ بھی یورپی یونین کا حصہ بن گیا۔ اپنی کرنسی الگ رکھی، یورپ سے اس اتحاد پر بہت باتیں ہوئیں۔ امریکہ بھی خوش نہ تھا کہ یورپ امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا۔ جرمنی اور فرانس اسے آنکھیں دکھائیں گے۔ یورپ ایک بڑی سیاسی، اقتصادی، صنعتی طاقت بن جائے گا۔ یورپ کی حیثیت آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے منسلک ہو رہی تھی۔ ہر ملک کے شہری کے لیے ملازمتوں کے افق وسیع ہو رہے تھے۔ ایک ملک کا مال دوسرے ملک میں آسانی سے آنے جانے لگا تھا اور ایک دوسرے ملک کے شہری بھی اچانک برطانیہ میں شور اٹھا کہ یہ تو ہمیں لوٹا جا رہا ہے۔ برطانیہ کا روایتی نخرہ برطانویوں کو تنگ کرنے لگا۔ وہاں جمہوریت ہے نا، انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کرا لو۔ لوگوں سے پوچھ لو، ریفرنڈم نے سب کو حیران کر دیا۔ برطانیہ کے عوام کی اکثریت نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیا۔ یورپی ملکوں نے بھی کہا، ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، بتائو کب ہماری جان چھوڑ رہے ہو۔ ادھر امریکہ نے بھی اکسانا شروع کیا، فکر نہ کرو، ہم جو پڑے ہیں۔ اینگلوسیکسین نشہ پھر چھانے لگا۔ امریکہ اور برطانیہ ایک ہو کر یورپ کے کڑاکے نکال دیں گے۔ مگر جب یہ عمل شروع ہوا تو برطانیہ والوں کو معلوم ہوا کہ کس بھائو بکتی ہے۔ پارلیمنٹ ایک سال سے بحث کر رہی ہے، کیسے الگ ہوں، کیا شرائط ہوں، حکومتیں ٹوٹ گئیں، مگر فیصلہ نہ ہو پایا۔ وہ مرحلہ بھی آیا جب وزیر اعظم نے ملکہ سے پارلیمنٹ معطل کرنے کا پروانہ بھی لے لیا۔ ادھر یورپ والے پوچھ رہے ہیں، اب بتائو بھی نا۔ یہ سب جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ وہ جمہوریت جس نے امریکہ جیسے ملک میں ٹرمپ ازم کا غلبہ کر رکھا ہے، جس نے بھارت کے سارے آدرش ملیا میٹ کر کے وہاں مودی کو راج سنگھاسن سونپ دیا ہے۔ جس نے پورے یورپ کو پریشان کر دیا ہے کہ وہاں کے انتہا پسند بھی طاقت کہلاتے جا رہے ہیں، ڈر ہے کہ جانے کب وہ جمہوریت کا تیا پانچہ کر کے وہاں بھی قابض ہو جائیں۔ اس وقت جمہوریت پر بڑا کڑا وقت ہے۔ کہا جاتا تھا کہ جمہوری قدر میں احتیاط، اعتدال اور معاملہ فہمی کے ساتھ چلتے ہوئے کبھی انتہا پسندی کو پلنے نہیں دیتیں، گو دنیا میں یہ کہا جا رہا ہے، برطانیہ تو جمہوریت کی ماں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ عمل مکمل ہو گیا تو برطانیہ عظمیٰ بس ایک چھوٹا سا انگلستان(لٹل انگلینڈ) رہ جائے گا۔ صرف بریگزٹ کی تیاری میں برطانیہ کا یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ3فیصد غریب ہو گیا ہے۔ ایک تجزیہ یہ کہتا ہے کہ یہ عمل مکمل ہونے تک وہ 3.5فیصد غریب ہو جائے گا اور آنے والے دنوں میں وہ چھ فیصد تک بھی غریب ہو سکتا ہے۔ اس وقت برطانیہ کے طول و عرض میں بحث چھڑ گئی ہے ہم نے انگلینڈ کے ساتھ رہ کر کیا کرنا ہے۔ شمالی آئرلینڈ کہتا ہے برطانیہ عظمیٰ سے الگ ہو کر آئرش ریپبلک میں شامل ہو جائو۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آئرلینڈ والے کہتے ہیں، ہم ان غریبوں کو کیوں اپنے ساتھ شامل کریں۔ سکاٹ لینڈ ہمیشہ سے انگلینڈ کا باغی رہا ہے، وہ کہتا ہے ہم الگ ہو کر یورپی یونین میں چلے جاتے ہیں۔ یورپی یونین ان سے پہلے ہی چھٹکارا پا چکا ہے، اب وہ بھی انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ویلز کے لوگ ہمیشہ انگلینڈ کے قریب رہے ہیں، سنا ہے ایک سروے کے مطابق وہاں کے 40فیصد اب علیحدگی کا سوچ رہے ہیں۔ کیا بنے گا اس برطانیہ کا جو برطانیہ عظمیٰ کہلاتا تھا، سورج تو برسوں پہلے اس سلطنت میں غروب ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اب کیا وہ اپنی عظمت پارینہ و دیرینہ کا صرف ایک عکس رہ جائے گا اور وہ بھی جمہوریت کے ہوتے ہوئے۔ سچ پوچھئے کہ ہمارے لیے اس میں کئی نشان عبرت ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم جمہوریت سے بدظن ہو جائیں، بلکہ یہ سوچیں کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو جمہوریت کے باوجود قومی بقا کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جمہوریت کے بغیر تو ملک باقی نہیں رہتے، یہ تو اولین شرط ہے مگر آخری نہیں۔ ہم جو پاکستان کی بقا اور سلامتی کے شرائط کا تذکرہ کرتے ہیں تو لوگ چیخ اٹھتے ہیں۔ نری جمہوریت تو اک عذاب ہے۔ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے، برطانیہ میں کیا ہوا ہے، بھارت کا کیا حال ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے سب قوانین اور سب دستور ایک نگرانی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ میں تو کہوں گا ایک آفاقی اور الوہی نگرانی کا تقاضہ، آپ کچھ اور کہہ لیجئے تووگرنہ بڑی بڑی جمہوریت کی داستانیں ہیں بہت کچھ سکھا رہی ہیں۔ اس میں کئی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں اور جا سکتی ہیں، مگر ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی تباہی غل مچا سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جمہوریت کو خیرباد کہہ دیا جائے اور کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔ لوگوں کی مرضی سے حکومت کرنا بہت سی خرابیوں کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے لیکن اس نظام کو اپنی موجودہ شکل میں نافذ کر کے مطمئن ہو جانا کہ اب ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، غلط ہو گا۔ ہمارے ہاں سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں کوئی سکاٹ لینڈ، آئر لینڈ، ویلز یا انگلینڈ نہیں۔ جیسی جمہوریت وہاں ہے، ہمارے ہاں توخیر سے ویسی نہیں۔ ہمارے گرد بھی جو ترقی کے ماڈل ہیں، وہ بھی کوئی خوشگوار نہیں۔ چین میں تو خیر نظام ہی دوسرا ہے، سنگاپور ملائیشیا کوریا وغیرہ بھی کوئی آئیڈیل جمہوریت کے لیے مثال نہیں ہیں۔ ایک تو دنیا میں جمہوریت نے آفت کھڑی کر رکھی ہے ہر جگہ، امریکہ، برطانیہ، بھارت ہر جگہ۔ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری قوتیں طاقت پکڑ رہی ہیں۔ دوسری طرف اردگرد جو ترقی کے دوسرے ماڈل میں وہ سرے سے جمہوریت دوست نہیں۔ وہاں ریاست کا مطمح نظر ہی اور ہے۔ کیا ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہم جمہوریت کے ساتھ انہی ریاست کے آئیڈیل بھی ذہن میں رکھیں۔ ویسے تو قوم نے وہ آئیڈیل ابتدا ہی میں ایک دستوری دستاویز میں وضع کر دیتے تھے جسے ہم قرار داد مقاصد کہتے ہیں اور ہمارے مفکر نے اپنے بنیادی خطبے میں اسے واضح کر دیا تھا۔ پھر ہم کیوں ان خوابوں سے خود کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ملک کے بانیوں نے دیکھے تھے۔ یہاں میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو قوم اپنی اصلیت سے دور جاتی ہے بالآخر بکھر جاتی ہے۔ برطانوی سامراج کو تو ختم ہونا ہی تھا، مگر کیا جمہوریت بھی چلتی رہے گی۔ اس جمہوریت کو تو انہوں نے بڑا سینت سینت کر پالا ہے تو کیا اب اس کے ہاتھوں ہی لٹ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مطلب صاف ہو گا وہ اپنی قومی حمیت اور عصبیت سے خالی ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ برطانیہ اپنی جمہوریت کے ہاتھوں سسک سسک کر دم توڑ دے گا۔ صرف اس لیے کہ اکٹھے رہنے کی مضبوط بنیادیں انہوں نے کھودی ہیں۔ ان بنیادوں کو مضبوط رکھو، پھر جمہوریت بڑے کام کی چیز ہے، وگرنہ کچھ کام نہیں آتی۔ پاکستانیو،تم بھی یہ بات سمجھ لو۔