قیام پاکستان کے بعد سوائے پاک فوج کے بقیہ اداروں میں شکست، ریخت کا عمل جاری رہا۔ فوج نے اپنے اندرونی نظم و نسق اور ڈسپلن کی وجہ سے بطور ادارہ مضبوط ہونے کا ثبوت دیا۔ لہذا ہمارے سول اداروں کی کارگزاری کچھ قابل رشک نہ رہی۔ سول بیورکریسی براہ راست محلاتی سازشوں کا حصہ تھی تو عدلیہ جسٹس مینر کی سر کردگی میں نظریہ ضرورت کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ تشکیل آئین کا کام رک رک کر چلتا رہا اور چل چل کر رکتا رہا۔ 1962ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں نے صدارتی طرز حکومت کو متعارف کراتے ہوئے اپنا آئین دیا۔ جسکا واحد مقصد ایوب خاں کی آمریت کو دوام بخشنا تھا۔ اس دور میں بلاشبہ ملکی صنعت و حرفت میں نمایاں ترقی ہوئی۔ منگلا اور تربیلا ڈیم جسے بڑے آبی منصوبے پائیہ تکمیل کو پہنچے۔ مگر شخصی حکومت اور آمریت کو دوام دینے کے لئے جمہوری قدروں کو بری طرح پامال کیا گیا۔ یہ قوم جو قائداعظم محمد علی جناح کو اپنا مسلمہ اور غیر متنازعہ لیڈر مانتی تھی اور ابھی بے شمار قائد کے ساتھی زندہ موجود تھے۔ قائد کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی الیکشن لڑا تو مغربی پاکستان اور خصوصاً پنجاب کے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے یہاں کی بیورکریسی کے ملاپ سے قائد کی ہمشیرہ کو شکست سے دوچار کیا۔یہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ جمہوری روایات شاید ہمیں راس نہیں آتیں۔ ہمارے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری اشرافیہ نے ہمیشہ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت میں زیادہ عافیت محسوس کی ہے۔ ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیں تو دیکھیں کہ ہر آمر کو کس طرح ہماری اشرافیہ نے "آؤٹ آف دی وے "جاکر سپورٹ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوری کلچر پروان چڑھ سکا نہ ہی جمہوری ادارے نشوونما پاسکے۔ آج بہتر سال کا عرصہ گزارنے کے باوجود ہم وہیں کھڑے ہیں۔ جہاں سے آغاز سفر کیا تھا۔ بقول منیر نیازی "منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ" ہم نے گزشتہ بہتر برسوں میں نظام حکومت کو بہتر بنانے کے بجائے بار بار نظام میں بڑی جوہری تبدیلیاں کیں۔ جسکی وجہ سے ہمارا نظام حکومت ، معاشرہ میں کوئی ٹھوس تبدیلی نہ لا سکا۔صرف لوکل گورنمنٹ کے نظام کی ہی مثال لے لیں کہ ہم نے کس بری طریقہ سے اس کوتباہ کیا۔ کبھی ہم نے بنیادی جمہورتیں متعارف کرائیں تو کبھی ناظم اور کبھی چیرمین تو کبھی میئر جو بھی حکومت نئی آتی وہ پچھلے اداروں کو استحکام اور تسلسل دینے کے بجائے نئے ادارے متعارف کراتی رہی۔ خصوصا" ہماری آمریتوں کے ادوار بڑے دلچسپ تھے۔ کبھی بیوروکریسی کو تمام اختیارات اور کبھی ان کے اختیارات میں کمی۔ لیکن ڈھنگ کا دیرپا نظام نہ مل سکا۔ ان تمام ادوار میں ڈکٹیٹر یہ سمجھتے رہے کہ وہ ملک اور قوم کے لئے لازم و ملزوم ہیں اگر وہ نہ رہے تو شاید یہ ملک آ گے نہ چل سکے۔ مگر انکے جانے کے بعد یہ اندازہ ہوتا رہا۔ کہ انکے ہوتے ہوئے ملک چل کیسے رہا تھا۔ یہ بات کسی بحث کی محتاج نہیں ہے کہ جب ذاتی اغراض ، قومی مفادات پر غالب آجائیں، نا اہل لوگ اہل لوگوں کا راستہ روکیں، میرٹ کی دھجیاں بکھیری جائیں، کرپشن اور اقربا پروری کا راج ہو۔قیام پاکستان کے بعد محکمہ بحالیات میں داخل کرائے گئے فرضی اور جعلی کلیموں سے بدعنوانی اور محکمہ جاتی کرپشن کا آغاز آہستہ آہستہ تمام اداروں میں سرایت کر گیا تو پھر اداروں کی تباہی مقدر ہوئی۔ ہم نے اس دوران قانون سازی تو بہت کی مگر اپنے ادارے ٹھیک نہ کر سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ لوگوں کا اداروں سے اعتماد اٹھ گیا عام آدمی امور مملکت سے لاتعلق ہوتاگیا۔ اگر عام آدمی یہ سمجھنے لگے کہ یہ ملک صرف اشرافیہ کا ہے تو محروم اور پسماندہ طبقے مزید احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی اور معاشی اونچ نیچ انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ خط افلاس سے نیچے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ چلے جائیں اور دیپ صرف محلات میں جلیں تو تمام اہل دانش کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے جب لوگ روٹی روزی کے چکر میں بے حال ہوجائیں اور چوری ، ڈکیتی عام ہو جائے اور لوگوں میں جان و مال کا خوف لاحق ہو جائے تو بقول حبیب جالب۔ " اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پڑی ہو سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی" یہ خواہ ڈکٹیٹرز ایوب خاں ،یحیٰ خاں، ضیا الحق یا پرویز مشرف ہوں یہ خواہ جمہوری لبادے میں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف ، آصف زرداری یا عمران خاں ہوں۔ یہاں فرد واحد کی حکومت ہی نظر آتی ہے ہماری جمہوری روایات اتنی کمزور ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر سے بھی شاذ ہی اختلافی آواز سننے کو ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں موروثی اور خاندانی نظام کا واضح عندیہ دیتی ہیں۔ ایسے میں اداروں کی مضبوطی اور استحکام کی بات کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اور واقعی یہ جناح کا گمشدہ پاکستان نظر آتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نئے پاکستان کی نوید عرصہ سے سنا رہے ہیں مگر نیا پاکستان عوام کے لئے کسی راحت ، سکون، اور خوشحالی کا باعث بنتا نظر نہیں آ رہا۔ لہذا ہم قائد کا گمشدہ پاکستان ہی واپس مانگتے ہیں۔ خدارا ہمیں اصل پاکستان ہی واپس کر دیں۔ وہ پاکستان جس میں قائد نے قانون ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اقلیتوں سمیت دیگر لوگوں کے رہنے کے کچھ اصول بتائے تھے۔ جو انہوں نے سول سروس کے افسران کو گائیڈ لائن دی تھیں۔ اْن پر عمل درآمد ہو جائے تو اس سول سروس کا چہرہ تبدیل ہو جائے۔ ہمیں پبلک فرینڈلی ادارے چائیں۔ تھانہ ، پٹوار سے لوگ تنگ آ چکے بے شمار اصلاحات تجویز ہوئیں۔ مگر نہ کوئی تبدیلی نہ خوش خبری۔ اس سے پہلے کہ عوام کاپیمانہ صبر لبریز ہو جائے یاوہ مکمل طور پر ریاستی امور سے لا تعلق ہو جائیں ہمیں ہنگامی طور پر اداروں کی اصلاح کر نا ہوگی۔ تھانہ اور کچہری میں عوام کی تذلیل کب تلک ؟ اشرافیہ کا پاکستان اور عام آدمی کے پاکستان میں اتنا فرق کب تلک؟ انصاف کے حصول کے لئے نسلوں تک انتظار کب تلک۔ ریاست اور معاشرہ کو نئی کروٹ لینا ہو گی۔ جو بھی ان اداروں کو پبلک فرنیڈلی بنانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے گا۔ وہی اس قوم کا اصل ہیرو ہو گا۔ہم خالی نعروں اور وعدوں کے دور نکل گئے۔