یورپ میں بیٹھے بزرگ پنجابیوں نے غدر موومنٹ بنائی‘ سیالکوٹ کے موہن سنگھ نے آزاد ہندو فوج بنائی‘ پھر سہگل‘ ڈھلوں اور شاہنواز جیسے کردار ہیں‘ بھگت سنگھ سندھو ‘ راجگورو اور سکھدیو‘ جلیانوالہ باغ میں شہید ہونے والے مسلمان‘ سکھ اور ہندو پنجابی‘ قصور کے وہ لوگ جنہوں نے انگریز کے خلاف بغاوت کی اور کوڑے کھائے، میرے ایک بزرگ جان محمد بھی ان میں شامل تھے۔ ادھم سنگھ نے لندن جا کر انگریز جنرل ڈائر کو قتل کیا۔ ایک اور موصوف مطمئن نہ ہوئے اور پتہ پھینکا کہ پنجاب کا کوئی رہنما جس نے تحریک پاکستان کے حوالے سے قائد اعظم کا ساتھ دیا ہو؟۔ اللہ بھلا کرے میرے استاد اور دوست یاور نواز صاحب کا انہوں نے علامہ اقبال‘ مولانا ظفر علی خان کا نام لیا۔ میں نے بتایا کر برٹش ٹرانسفر پیپر پڑھ لیں۔ ان میں خضر حیات ٹوانہ اور نواب ممدوٹ قائد اعظم کی جانب سے بہت سے معاملات میں وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن‘ گورنر جینکنز اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے‘ حریت پسند تحریک کے حوالے سے ہم ان علماء کو بھی فراموش نہیں کر سکتے جنہیں پنجاب سے اٹھا کر کالا پانی بھیج دیا گیا۔ اس تاریخ میں میرے آبائی شہر کا ملنگی‘ لاہور کا امام دین گوہاویا‘ گجرات کے نواح کا رائے احمد خان کھرل‘ پنڈی بھٹیاں کا عبداللہ عرف دلا بھٹی جس نے مغل بادشاہ اکبر کو بیرونی حملہ آور قرار دے کر بغاوت کردی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب پر غیر پنجابی اشرافیہ کا قبضہ صدیوں پر محیط ہے۔ اس اشرافیہ نے اہم معاملات بھی اپنے لوگوں کو سونپے۔ کیا یہ بات باعث حیرت نہیں کہ آپ کسی بھی دوسرے صوبے کی مادری زبان پرائمری کے نصاب میں پڑھتے ہیں لیکن پنجاب میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ایک بار میں نے کچھ کالم نگار دوستوں کو پنجابی میں ایک پیغام بھیج دیا۔ کئی ایک نے شکایت کی کہ یہ اردو میں کیوں نہیں‘ پنجاب کی جامعات میں دوسرے صوبوں کے طلباء نے اپنی ثقافتی اور رابطہ تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ کیا پنجابی طلباء کسی دوسرے صوبے میں اس قدر آزادانہ سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں؟ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن ایک ہیں‘ ان کے ظاہری حالات کچھ مختلف ضرور ہیں‘ دونوں افغانستان کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہیں‘ یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ خاص طور پر ان دونوں نے لاکھوں افغان شہریوں کو پاکستان کا شہری بنانے کے لئے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کیا‘ یہ لوگ پاکستان آ کر ان کے ووٹر بن جاتے ہیں۔ حافظ حمد اللہ کا معاملہ اس کی مثال ہے‘ المیہ یہ کہ عدالت سے حکم امتناع لے کر حافظ حمد اللہ کا مقدمہ التواء کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اب موزوں حالات کا انتظار کیا جا رہا ہے‘ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ جب بھی کمزور پڑی دیگر معاملات کی طرح اس کیس میں بھی چھوٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ یہ لوگ جن کو نادرا کی شناختی دستاویزات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں وہ سوفیصد پاکستان کے وفادار ہیں‘ کیا یہ سچ نہیں کہ بلوچستان اور کے پی کے میں سمگلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث لوگوں کو کہیں نہ کہیں سے سیاسی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے‘ تمام نسلوں اور مقامی قومیتوں میں اچھے برے لوگ رہے ہیں۔ تاریخ زندہ رہتی ہے اس لئے ایسے لفظ زبان سے نہیں نکالنا چاہئیں جو ادا کرنے والے کو تاریخ میں مار دیں۔ ہماری سیاسی قیادت بروقت مکالمہ کا فرض ادا نہ کر سکی جس سے پاکستان کو متعدد سانحات دیکھنے پڑے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری قومی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں‘ انہیں صرف نعرے لگانے اور عمران خان کے خلاف پرجوش تقریریں لیڈر نہیں بنا سکتیں۔ انہیں مقامی ثقافتوں کے متعلق کس قدر آگاہی ہے‘ وہ زبان ‘ عقائداور جغرافیے کے درمیان تعلق کا تجزیہ کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں‘ انہیں کلچر اور سیاسی کلچر کو الگ الگ کر کے دیکھنا ہو تو کیسے دیکھیں گے؟ ان سے پوچھنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی اور پروڈکشن کے ٹولز بدلنے سے پاکستانی سماج کے سیاسی رویے میں جو بدلائو آیا اس نے تیسری سیاسی جماعت کو ابھارا‘ ان کی جماعتوں کے دانا اس تبدیلی کا اندازہ کیوں نہ لگا سکے؟ مریم نواز اور بلاول کو بتانا چاہیے کہ تجویز نیشنل ڈائیلاگ کی ہو‘ نئے معاہدہ عمرانی کی ہو یا مفاہمتی سیاست کی‘ اس عمل میں ہمیشہ عوام نظرانداز اور مخصوص خاندان ہی کیوں فائدے میں رہتے ہیں ؟۔ میرا ان دونوں سے سوال ہے کہ معاشیات‘ ٹیکنالوجی‘ خلائی سائنس اور ماحولیات سے بے خبر قیادت دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے بے خبر اور ناخواندہ لوگوں کی بھیڑ جمع کر کے کیسے ملک چلا سکے گی۔ ناتجربہ کاری نہیں یہ بڑی جماعتوں اور ان کی صف اول کی قیادت کی ناکامی ہے کہ انہوں نے اپنی تحریک کو پنجاب دشمن بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ یہ اہداف بھارتی منصوبی ساز اجیت دوول کے نشان زدہ ہیں‘ پھر ہم پی ڈی ایم جلسوں کو کیا سمجھیں؟آخری بات یہ کہ اچکزئی صاحب کے ساتھ سٹیج پر بیٹھے تمام سیاستدان قومی یکجہتی کے قاتل اور ملک کی نصف آبادی کے اس وقت تک مخالف تصور کئے جائیں گے جب تک یہ سیاستدان اس نفرت انگیز سوچ کی مذمت نہیں کرتے ۔ کون تاریخ میں غدار ہے اور کون محب وطن‘ یہ بحث طویل سہی مگر مبہم ہرگز نہیں‘ آج بھی دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں امن پسند اکثریت پرتشدد اور جارحیت پسند اقلیتوں کا کنٹرول ہے۔ پنجاب اور پنجابیوں پر تمام الزامات مستند حوالوں سے غلط ثابت ہوتے ہیں‘ بس یہ کہ پنجابی سکالرز نے مصلحت سے کام لیا اس پروپیگنڈہ کا جواب نہ دیا جس پر الزامات کا بیانیہ پھیلتا گیا‘ نوبت یہاں تک آ گئی کہ کچھ پنجابی بھی اس تاریخی مغالطے سے متاثر ہو گئے۔ (ختم شد)