اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر ماریہ فرنینڈا اسپنوزا نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کئے جانے کی حمائت کی ہے۔ محترمہ ماریہ اسپنوزا نے لاکھوں افغان مہاجرین کو عشروں تک پناہ دینے پر پاکستان کی خدمات کو سراہا۔ جنرل اسمبلی کی صدر کو وزیر اعظم نے گستاخانہ خاکوں کی وجہ سے مسلمانوں میں پھیلنے والے غم و غصہ سے آگاہ کیا اور ان سے اس طرح کی دل آزار سرگرمیوں کو روکنے کے لئے کردار ادا کرنے کو کہا۔ وزیر اعظم نے محترمہ ماریہ اسپنوزا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں توقع ظاہر کی کہ اقوام متحدہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ دنیا کے بڑے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات کو مختصر وقت میں اکثر پرامن طریقے سے طے کر لیتے ہیں مگر پسماندہ ممالک کے باہمی جھگڑے عشروں تک عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی بے رخی کا شکار رہتے ہیں۔ انڈونیشیا میں مسیحی آبادی کی اکثریت والے علاقے نے علیحدگی کا مطالبہ کیا تو تمام مغربی دنیا اور اقوام متحدہ اس مطالبے کے حامی بن کر سامنے آ گئے۔ یوں دو تین برسوں میں مشرقی تیمور الگ ریاست بن گئی۔ سوڈان کے معاملے میں بھی ایسا ہوا۔ جنوبی سوڈان میں مسیحی آبادی کو اکٹھا کر کے انہیں الگ ریاست کا درجہ دیدیا گیا۔ مگر مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور جنوب مشرقی ایشیا میں کشمیر قابض افواج کے ظلم سے لہو لہو ہیں۔ تنازع کشمیر کی ابتدا بھارت کی جانب سے کشمیر کو زبردستی اپنا حصہ بنانے کی کوشش سے ہوتی ہے۔ کشمیری باشندوں نے اس غیر قانونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ پاکستان نے کشمیریوں کے وکیل اور محافظ کا کردار نبھایا۔ پاکستان کے متحرک کردار کی وجہ سے مجاہدین نے خاصا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیا۔ بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست کی اور بدلے میں کچھ وعدے کئے جن پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔21اپریل 1948ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قرار داد نمبر 47منظور کی۔ اس قرار دادمیں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ کشمیر سے اپنے تمام شہری واپس بلا لے۔ پاکستان نے اس قرار دادکا احترام کیا۔ قرار دادمیں بھارت سے کہا گیا کہ وہ کشمیر سے اپنی افواج کو نکالے اور صرف اس قدر سکیورٹی اہلکار رہنے دے جو عمومی امن و امان کے لئے درکار ہوں۔ قرار داد نمبر 47کے تیسرے حصے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں یہاں استصواب رائے کرانے کا کہا گیا۔ اس ساری قرار داد کو منظور کر لیا گیا۔ پاکستان کو بعض اعتراضات تھے مگر اس نے اقوام متحدہ کی ثالثی کو خوش آئد قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے ارجنٹائن‘ بلجیم‘ کولمبیا‘ چیکو سلوواکیا اور امریکی سفارتکاروں پر مشتمل ایک کمشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن کو ہدائت کی گئی کہ وہ پاکستان اور بھات کا دورہ کرے اور خطے میں امن کی بحالی و کشمیر میں استصواب رائے کے لئے تیاریوں کا جائزہ لے۔ اس کمشن کی سفارشات اور ثالثی پر پاکستان اور بھارت جنگ بندی معاہدے پر تیار ہو گئے۔ یوں اقوام متحدہ کی ثالثی کے باعث ناصرف دونوں ممالک کے درمیان جنگ رکی بلکہ اس سے ایک نظیر قائم ہوئی کہ تنازع کشمیر میں اقوام متحدہ بطور ثالث کردار ادا کر سکتاہے اور کسی فریق کو اس ثالثی پر اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر بھارت کی جانب سے مسلسل عدم تعاون کی وجہ سے دسمبر 1949ء میںاس کمشن نے اپنی ناکامی تسلیم کر لی۔ دسمبر 1949ء میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے صدر جنرل میک ناٹن سے درخواست کی گئی کہ وہ پاکستان اور بھارت سے پرامن انداز میں تنازع کشمیر طے کرنے کا کہیں۔ جنرل میک ناٹن کی سفارشات میں دونوں ممالک کو مساوی حیثیت دی گئی تھی اس لئے بھارت نے ان سفارشات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جنرل میک ناٹن نے فروری 1950ء میں اپنی رپورٹ جمع کرا دی۔ بعدازاں ڈکسن مشن نے تجویز پیش کی کہ بھارتی تسلط سے آزاد کرائے گئے کشمیری علاقے کو مقامی نمائندوں کے ذریعے اقوام متحدہ کے کمشن کی نگرانی میں دیدیا جائے۔ بھارت نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ آزاد کشمیر کے مقامی باشندے پاکستان کے حق میں رائے رکھتے ہیں اس لئے یہ تجویز قبول نہیں کی جا سکتی۔ تاریخی طور پر ایک طویل فہرست ہے جو بتاتی ہے کہ پاکستان نے پرامن طریقے سے تنازع کشمیر کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر بھارت ہر بار اس معاملے کے اردگرد بہانوں اور حیلوں کا ایک غلاف پھیلاتا چلا جاتا۔ پاک بھارت کشیدگی کو اس وقت ایک نیا روپ دیدیا گیا جب بھارت نے افغانستان میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اصول کو بطور دلیل کشمیر کے مقدمے پر لاگو کرنا شروع کر دئیے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دیا جانے لگا اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمائت پر پاکستان کو دہشت گرد سرگرمیوں کا مرکز بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ بھارت میں اس دوران دو چار مشکوک واقعات نے بھارت کو موقع دیا کہ وہ اپنی ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے کچھ عرصہ کشمیر کے معاملہ کو سرد خانے میں رکھ چھوڑے اور اس پر کسی طرح کی بات چیت نہ کرے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ایک نئی کروٹ لے چکی ہے۔ پاکستان کو ایک بار پھر دنیا میں اہمیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان کی ہر قیادت نے کشمیر کے معاملے کو اجاگر کیا تاہم یہ اعزازموجودہ حکومت کو دیا جانا چاہیے کہ اس نے مذاکرات سے انکاری بھارت پر مسلسل دبائو ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار کے طور پر محترمہ ماریہ اسپنوزا کا کشمیریوں کی حالت زار پر توجہ دینا ایک اہم واقعہ ہے۔ ان کے دورہ پاکستان سے تنازع کشمیر کے متعلق دنیا کو پاکستان کا موقف سمجھنے میں مدد ملے گی۔