گزشتہ روز مخدوم شاہ محمود قریشی اور فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنسس کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے بل اسمبلی میں پیش کرنے اور سیکرٹریٹ ملتان میں بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ، جنوبی پنجاب انتظامیہ آئندہ ماہ کام شروع کر دے گی ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور اور ایڈیشنل آئی جی ملتان میں بیٹھے گا ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی نے ملاقات کی جس میں سیاسی امور اور جنوبی پنجاب صوبہ سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ، ذرائع کے مطابق بیشتر اراکین اسمبلی نے بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانے کی مخالف کرتے ہوئے ملتان میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بنانے کی تجویز دی جبکہ کچھ اراکین اسمبلی نے بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانے کی حمایت کی۔ گزشتہ روز ابھی مخدوم شاہ محمود قریشی اور محترمہ فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس ہو رہی تھی اور ساتھ ہی وسیب میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ، وسیب کے لوگوں اور سرائیکی جماعتوں کو صوبے کا نام ، اس کی حدود اور دارالحکومت کی جگہ کے فیصلے پر تحفظات ہیں ۔ اصولی طور پر یہ کام ایک صوبہ کمیشن نے طے کرنا ہے کہ صوبہ کا نام کیا ہوگا؟ اس کی حدود کیا ہونگی اور دارالحکومت کس جگہ قائم ہوگا؟ ہمسایہ ملک بھارت میں ایک مستقل صوبہ کمیشن اپنا کام کر رہا ہے ، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی صوبہ کمیشن قائم کیا گیا تھا اور ن لیگ کے بائیکاٹ کے باوجود صوبہ کمیشن نے بہت کام کیا ۔ یہاں تک کہ سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کرا لیا تھا ۔ اگر موجودہ حکمران صوبہ بنانے میں سنجیدہ ہیں تو اسی عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور گزشتہ دور میں پنجاب اسمبلی کی قرارداد اور سینیٹ کے بل کو زندہ سمجھ لیا جائے تو بات کو بہت آسانی کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ صوبے کے نام ، اس کی حدود اور دارالحکومت کے مسئلے پر بات کرنے سے پہلے میں یہ بھی کہوں گا کہ وسیب کی زمینوں کو پانی میانوالی کے جناح بیراج اور جھنگ کے تریموں بیراج سے حاصل ہوتا ہے ۔ نئے صوبے کی سکیم میں میانوالی اور جھنگ شامل نہیں تو وسیب کے لوگ پانی کے وسائل کے بغیر صوبے کو کیا کریں گے ؟ بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانے کے فیصلے پر وسیب خصوصاً میانوالی ،بھکر، دیرہ اسماعیل خان ، ٹانک ، لیہ ، دیرہ غازی خان کے لوگوں میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے ، لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر علیحدہ صوبے کا سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنایا جا رہا ہے تو میرٹ کی خلاف ورزی ہوگی، ان کا کہنا ہے کہ بہاولپور ہمارا اپنا شہر ہے لیکن بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانے کا فیصلہ وسیب کے لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لئے کیا گیا ہے۔ وسیب کو ایک دوسرے سے لڑانے کا مقصد صوبہ بنانا نہیں بلکہ صوبے کے ایشو کو خراب کرنا ہے ، صوبے کے ایشو کو خراب کرنے کا کام پہلے محمد علی درانی اور اب طارق بشیر چیمہ سے لیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ڈی جی خان میں منعقد ہونے والے سرائیکستان صوبہ محاذ کے اجلاس میں کہا گیا کہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جس جنوبی پنجاب صوبے کا اعلان کیا اس میں ٹانک ، ڈی آئی خان ، میانوالی ، بھکر ، خوشاب ، جھنگ اورساہیوال وغیرہ شامل نہیں اس کا مطلب صوبہ بننے سے پہلے سرائیکی صوبے کو بے شناخت اورلولہا لنگڑا کر دیا ، ان کو معلوم نہیں سرائیکی ایک قوم ہے قوموں کے وطن ہوتے ہیں ، ان کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہوتی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے خیبرپختونخواہ کو شناخت دینے کیلئے آئین میں ترمیم کر دی جائے اور سرائیکی وسیب کو وہ غیر پسندیدہ نام دیا جائے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی اپنی دھرتی اپنا جغرافیہ، اپنی تہذیب و ثقافت ہے ، وہ نہ تو کسی کے کمی ہیں اور نہ مزارع ، وہ نہ تو برتر صوبہ مانگتے ہیں اور نہ کمتر قبول کریں گے ، عمران خان کو وسیب کی حدود اور شناخت کے مطابق صوبے کی حمایت کرنی چاہئے۔ کچھ حلقے صوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ نام لسانی ہے حالانکہ پاکستان کے تمام شہروں میں لسانی بنیاد پر بازاروں کے نام اُردو بازار کے نام سے جائز ہیں؟ اُردو کالج اور اُردو یونیورسٹی جائز ہے ؟ پنجاب کی شناخت پر پنجاب سندھ کی شناخت پر سندھ پختونوں کی شناخت پر خیر پختونخواہ اور بلوچوں کی شناخت پر بلوچستان اگر جائز ہے تو پھر صوبہ سرائیکستان میں کیا حرج ہے ؟ عرب لیگ اور سعودی عرب پر بھی کوئی شرعی حد اگر لاگو نہیں ہوتی تو پھر وسیب کے لوگوں سے مذاق کیوں کیا جا رہاہے ؟عدل اور انصاف کے الگ الگ پیمانے کیوں ہیں؟ وسیب کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیکرٹریٹ کبھی صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا ، مزید قباحت یہ پیدا کر دی گئی کہ آدھا سیکرٹریٹ بہاولپور اور آدھا ملتان ، ریاستی اور حکومتی امور میں آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والے فلسفے کامیاب نہیں ہوتے ، لہٰذا تمام اقدامات صوبے کے قیام کیلئے ہونے چاہئیں ۔ وسیب کو سرائیکی وسیب کہنے کی بجائے جنوبی پنجاب کہاجاتا ہے حالانکہ یہ لفظ لغوی اعتبار سے بھی غلط ہے کہ وسیب کے بہت سے اضلاع جن میں میانوالی ،ٹانک، ڈی آئی خان، خوشاب، بکھر اور لیہ وغیرہ پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے ، وسیب کے لوگ لفظ جنوبی پنجاب کو اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے ۔ پھر عمران خان ،عثمان بزدار، مخدوم شاہ محمود قریشی ، آصف زرداری ،یوسف رضا گیلانی اور وسیب کے دوسرے سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ جنوبی پنجاب کہہ کر زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں۔حکومت کے حالیہ اقدام سے وسیب کے لوگوں میں خوشی کی بجائے تشویش پائی جا رہی ہے ، حکمرانوں کو صوبے کے قیام کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور وہ وسیب کو دودھ دے رہے ہیں تو اس میں مینگنیاں ڈالنے کا کیا فائدہ ؟وسیب کے لوگوں کا یہ مطالبہ ہر لحاظ سے بجا اور درست ہے کہ جس طرح دوسرے صوبے ہیں ، اسی طرح سرائیکی صوبہ بھی بنایا جائے تاکہ لوگوں کو خوشی اور آسانیاں مل سکیں اور وفاق پاکستان مضبوط و مستحکم ہو سکے۔ تحریک انصاف کے اس اقدام سے اس کی مقبولیت میں یقینا اضافہ ہوگا ۔