اگرچہ غم بھی ضروری ہے زندگی کے لئے مگر یہ کیا کہ ترستے رہیں خوشی کے لئے وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقیں آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے یہ شب و روز کا ہجر و وصال ہی تو زندگی ہے۔ یہ سردی گرمی اور بہار و خزاں اور پھر بارش سب موسم ہی تو ہیں۔ پھول کھلیں یا زخم سلیں یا پھر بچھڑے ہوئے ملیں‘ سب کیفیتوں کے نام ہیں۔ میں سمز کے تخیل مشاعرہ میں تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ’’رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے‘‘ یہ عہد شباب جوان جذبے‘ سنہرے خواب اور خوش رنگ گلاب کس کا سرابوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات ملک کی کریم۔ ذہین چمکتی آنکھیں دمکتے روشن چہرے اور پرامید اور پروقار لہجے۔ اس عہد کے اپنے آداب اور اپنے رکھ رکھائو ہوتے ہیں: مسکراتے ہوئے اسے دیکھا باور آیا کہ زندگی کیا ہے سمز کی لٹریری سوسائٹی کے انچارج اور روح و رواں ڈاکٹر محمد امجد سنہری شیروانی زیب تن کئے ہوئے تھے اور ان پر کسی لکھنوی شاعر کی چھوٹ پڑ رہی تھی‘ اہتمام و انصرام میں موجود تھے۔ کمال یہ ہے کہ وہ سچ مچ ایک ادیب اور اچھے انشا پرداز ہی نہیں اچھے مقرر بھی ہیں۔ بہت خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ مشاعرے کا آغاز انہوں نے خود کلام پاک سے سورۃ العصر پڑھ کر کیا اور یہ نہیں اس سورۃ کی تفسیر بیان کر کے دل موہ لئے۔ چنانچہ ایک بامقصد آغاز ہوا۔ کمپیرنگ پر آئے ہوئے بچے ہونہار اور بلاصلاحیت تھے۔ تحریم فاطمہ اور رشید قاضی نے خوب سٹیج سنبھالا۔ فہدملک باقاعدہ شاعر کے پورے گیٹ اپ میں تھا۔ ایک خوبصورت انداز میں اس نے اپنے ادارے کی نمائندگی کی۔ فہیم رمضان بھی بہت پیارا لگا۔ اب ذرا آتے ہیں مشاعرے کی طرف جس کی صدارت اس عہد کے نامور شاعر عباس تابش نے کی اور مہمان خصوصی شاید میں ہی تھا۔ تاہم میرے بڑے ڈاکٹر طارق عزیز بھی موجود تھے۔ ایسی ایسی شاعری اس مشاعرے میں سنائی گئی کہ توبہ ہے۔کون کہتا ہے کہ آج شاعری نہیں ہو رہی۔ ذرا چند شعروں کے تیور تو دیکھیے: گھنٹوں کی بات چیت میں اک پل نہیں ملا وہ روز مل کے کہتا ہے تو کل نہیں ملا (ڈاکٹر احمد طلال) جو کہنا ہے پاگل پن میں کہہ دینا سوچی سمجھی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں (ڈاکٹر احسن شہزاد) تمہارے پہلو میں جو ہماری جگہ کھڑا ہے اسے بتائو وہ شخص کس کی جگہ کھڑا ہے (عدنان محسن) کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے (جواد شیخ) جب سے اس کی آنکھ میں آنسو دیکھے ہیں تب سے مجھ کو پانی سے ڈر لگتا ہے (ڈاکٹر فخر عباس) میری آنکھوں میں آپ کا چہرہ ایسے لگتی ہے آگ پانی میں (احسان الحق مظہر) اگر میں مزید لکھتا گیا تو کالم نہیں بچے گا کہ اس ادارے کو خراج تحسین بھی تو پیش کرنا ہے۔ ڈاکٹر محمد امجد بتا رہے تھے کہ اس ادارے کا میرٹ پر تیسرا نمبر ہے اور انہوں نے بتایا کہ پروفیسر محمود ایاز اس کے پرنسپل ہیں اور طلباء و طالبات کے مسائل کو اولیت دیتے ہیں۔ اس کے بعد خود پروفیسر محمود ایاز آئے تو انہوں نے اپنی باتوں سے مہمانوں کے دل موہ لئے۔ کہنے لگے کہ ان کا کام تو سرجری میں نشتہ چلانا ہے جو کہ جسمانی بیماری درست کرتا ہے مگر جو نشتر لفظوں کے شعرائے کرام کے پاس ہیں وہ روح کی درستگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے طلبا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے آپ ہماری کلاسوں میں اور بریفنگ میں اس ذوق شوق سے نہیں آئے مگر یہاں آپ پانچ گھنٹوں سے مسلسل بیٹھے ہوئے داد دے رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ کیا میں خود بار بار کام نمٹا کے آن بیٹھتا ہوں۔ اس مشاعرے میں کنگ ایڈورڈ کالج کی ادبی سرگرمیوں کے روح و رواں ڈاکٹر ارشاد حسین قریشی بھی تشریف فرما تھے۔ ایسا بھلے مانس اور پیارا شخص بھی کون ہو گا۔ ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر طاہر بھی وہاں موجود تھے۔ اس مشاعرے سے پہلے بیاد ناصر کاظمی بچوں کا شعری مقابلہ بھی تھا۔ طرح مصرع تھا’’وہ زود رنج سہی پھر بھی یار اپنا ہے‘‘سینئر شعرا میں ہمارے دوست انجم سلیمی فیصل آباد سے آئے تھے۔ وہ کیا ہی اچھا شاعر ہے: مرنے والے تو کوئی رشتہ تو رہنے دیتا میں تجھے یاد بھی کرتا میں تجھے روتا بھی علی زریون نے نظم سنائی اور خوب داد پائی۔ ڈاکٹر طارق عزیز نے خوب کلام سنایا: شاعری نغمہ پرکیف ہے نالہ بھی تو ہے یہ مرے ترک تعلق کا ازالہ بھی تو ہے اس مشاعرے میں اکلوتی شاعرہ شفقت نسیم تھی جس نے نظم سنائی تو تازہ کاری کا انداز ہوا۔ سب کے کلام سے نمونہ لکھنا ممکن ہی نہیں۔ مزاج بھی خوب رہا کہ جس میں طاہر شاہیر نے حسب سابق مشاعرے کو قہقہہ بار بنا دیا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر محمد امجد نے ایک شعر سنا دیا جو بہت پسند کیا گیا: میک اپ کر کے ملتی ہو تو بالکل ریما لگتی ہو میک اپ دھو کے ملتی ہو تو شفقت چیمہ لگتی ہو دو نوجوانوں کے اشعار کیوں رہ جائیں کہ دونوں ہی بہت اعلیٰ شاعر ہیں: میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں میں چہرے بھول بھی جائوں تو لہجے یاد رکھتا ہوں (ڈاکٹر خالد ادریس) تمہیں یہ سڑکیں مرے توسط سے جانتی ہیں تمہیں محبت کے سب اشارے کھلے ملیں گے (تہذیب حافی) اب آخر میں صدر محفل جناب عباس تابش کے دو اشعار: میں اس لئے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں ہر ایک ہاتھ میں پتھر ہے کیا کیا جائے یہ آئینے کا مقدر ہے کیا کیا جائے