امریکی تاریخ کے انتہائی اعصاب شکن اور کانٹے دار انتخابی معرکہ کے بعد ڈیمو کریٹک امیدوار 78سالہ جوبائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر منتخب ہو گئے ہیںجبکہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کمالہ ہیرس نائب صدر بن گئی ہیں۔جوبائیڈن کو 538کے الیکٹورل کالج کی 290نشستیں اور ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کو 214سیٹیں حاصل ہوئیں‘جوبائیڈن امریکی آئین کے مطابق 20جنوری کو صدارت کا حلف اٹھائیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک‘ امریکی صدارتی انتخابات سے کوئی ملک لاتعلق نہیں رہ سکتا خصوصاً پاکستان کے لئے امریکی صدارتی انتخابات ہمیشہ سے بہت اہم رہے ہیں‘ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ابتدا میں پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے تاہم ٹرمپ کی افغانستان سے فوجی انخلاء کی خواہش نے انہیں پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاکہ موجودہ پی ٹی آئی دور حکومت میں یہ تعلقات ماضی کے برخلاف نہ صرف برابری کی بنیاد پر قائم ہوئے بلکہ ان میں یک گو نہ قربت کے آثار بھی پیدا ہوئے ہیںجس کے نتیجہ میں پاکستان نے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات میں سہولت کاری فراہم کی۔ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ 20برس میں پاکستان کے لئے امریکہ کی کوئی خصوصی پالیسی نہیں تھی اور پاکستان کو افغانستان پالیسی کے حوالے سے ہی دیکھا جاتا تھا‘ پاکستان نے امریکہ کے لئے نہ صرف طالبان سے اس کے مذاکرات کی راہ ہموار ا بلکہ اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے امریکہ کارپردازوں پر بھی یہ واضح کر دیا کہ اگر امریکہ افغانستان سے فوری انخلا چاہتا ہے تو اسے یہ کامیابی پاکستان کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن بھی اس حوالے سے پاکستان کی اہمیت سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ وہ ٹرمپ کے مقابلہ میں پاکستان کو زیادہ جانتے ہیں۔ وہ اپنے مختلف سیاسی ادوار میں پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں اورگزشتہ کئی عشروں کے دوران پاکستانی سیاستدانوں اور عسکری حکام سے براہ راست رابطے میں رہے ہیں۔ انہوں نے 2008ء میں ریپبلکن کے ساتھ مل کر پاکستان کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا غیر عسکر ی لوگر بل بھی تیار کیا تھا۔ پاکستان کی حکومت انہیں ملک کے دوسرے بڑے اعزاز ’’ہلال پاکستان‘‘ سے بھی نواز چکی ہے۔ وہ کشمیریوں کی کھل کر حمایت اور بھارت سے کشمیریوں کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ پاکستان سے تعلقات اور افغانستان سے فوجی انخلاکے حوالے سے ٹرمپ اور جوبائیڈن کا موقف ایک ہے۔ دونوں پاکستان کے ساتھ چونکہ دوستانہ تعلقات اور افغانستان سے انخلا کے حق میں ہیں تاہم تہہ در تہہ امریکی پالیسی کے تناظر میں جوبائیڈن کے دور میں فوجی انخلا کی پالیسی میں معمولی ردوبدل کے امکان کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرمپ کے مقابلہ میں جوبائیڈ ن کے طویل سیاسی تجربے، ان کی سنجیدہ شخصیت اور لچکدار رویہ کے تناظر میں ان کے انتخاب کو پاکستان کے لئے خوش امیدی اور دو طرفہ تعلقات میں مزید بہتری آنے کی توقع کیساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔