اتوار6جنوری 2020 ء کونئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات پرہونے والے تشدد کے بعد ہندوستان میں جاری احتجاجی تحریک کومزیدآنچ ملی۔ معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے کئی ہوسٹلز میں اتوار کی شام کو طلبہ پر درجنوں نقاب پوش حملہ آوروں نے لوہے کے راڈ، لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی یونین کی صدر آئشی گھوش سمیت 20 سے زائد طلبا زخمی ہوئے ہیں۔یونین کی صدر آئشی گھوش کو سر پر دو جگہ لوہے کی راڈ لگنے سے زخم آئے ہیں۔ نفاب پوش افراد’’ بھارت ماتا کی جے‘‘’’ وندے ماترم اور گولی مارو جے این یو کے غداروں کو‘‘کے نعرے لگا رہے تھے۔حملہ آوروں نے طالبات کے ہوسٹل میں داخل ہو کر کئی طالبات کو بھی زدوکوب بھی کیا ہے۔ رات بارہ بجے تک کم از کم 22 طالبات کو طبی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ بہت سے طلبا شدید زخمی ہو ئے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے کئی پروفیسرز کو بھی مارا پیٹا گیا ہے۔واضح رہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جو پورے ہندوستان میں جوتحریک چل رہی ہے اس جدوجہد کی سربراہی طلبا کی تنظیمیں کر رہی ہیں، وہ آگے آگے ہیں۔ نفاب پوش حملہ آور دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کیمپس کے اندر کئی گھنٹے تک طلبہ اور پروفیسروں کو زدوکوب کرتے رہے اس دوران پولیس کیمپس کے گیٹ پر موجود رہی لیکن وہ طلبا کو بچانے کے لیے آگے نہیں آئی۔ ان حملوں کی کئی ویڈیوزسوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔بہت سے طلبا تشدد سے بچنے کے لیے ہاسٹل کے کمروں میں بند ہو گئے اور انھوں نے کمروں کو اندر سے بند کر لیا۔ دہلی پولیس کی طرف سے تادم تحریر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔سوشل میڈیاپر وائرل ان ویڈیوز میں پوری طرح دیکھاجاسکتاہے کہ یہ نقاب پوش حملہ آور آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکن تھے جنھیں کیمپس میں موجود آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی کے کارکنوں کی مدد حاصل تھی۔ اسے قبل منگل9فروری2016 ء کوکشمیر کے عظیم شہید افضل گورو کی برسی کے موقع پر (JNU)یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلبا ء کی ایک جمعیت نے یونیورسٹی کیمپس میں ایک تصویری نمائش کاپروگرام بنایاتھاجس کیلئے انہوں نے پہلے ہی یونیورسٹی انتظامیہ سے باضابطہ طورپر اجازت حاصل کی تھی جس کے خلاف بی جے پی اور آر ایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP) یا’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘سے وابستہ طلبا ء نے احتجاج کیا اور اس موقعہ پر ہاتھ پائی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ۔چنانچہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP) یا’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘سے وابستہ طلباء کے دبائومیں آکر بعدمیں یونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت نامہ منسوخ کر دیا ۔ تاہم طلبا ء نے اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے تقریب کا اہتمام کرہی لیا۔ بی جے پی کی حلیف جماعت وشنو ہند پریشد نے یونیورسٹی حکام کودھمکی آمیزلہجے میں کہا کہ جواہرلال نہرویونیورسٹی) (JNUمیں پیش آمدہ واقعات ان کیلئے ایک امتحان سے کم نہیںاس لئے اگر کارروائی نہیں ہوئی تو یونیورسٹی بند کی جائے گی جبکہ اس وقت کے بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی نے افصل گورو کی برسی منانے والے طالب علموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ جواہر لعل یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاجی پروگرام نے راجدھانی میں ہلچل مچادی تھی اوراس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے احتجاجی پروگرام پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ قوم مخالف سرگرمیاںبرداشت نہیں کی جائیں گی۔ چنانچہ کشمیر کے عظیم شہید افضل گورو کی برسی پر تقریب کا اہتمام کرنے والے جواہرلال یونیورسٹی کی طلباء یونین کے صدراوردیگرکئی طلباء کے خلاف غداری کا کیس درج کر دیا تھا ۔یہ کیس بھارتیہ جنتاپارٹی کے رکن پارلیمنٹ ممبر مہیش گری اور آر ایس ایس کی طلبہ شاخ(ABVP) یا’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘کی مدعیت پرنئی دہلی کے وسنت کنج،شمالی تھانہ میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124غداری اور دفعہ.B 120مجرمانہ شازش کے تحت درج دہلی پولیس نے درج کیا گیا ۔ واضح رہے کہ12فروری 2016 ء کودلی پولیس نے دہلی پولیس نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمارکوغداری کے الزام میںگرفتار کر لیا تھا۔ کنہیا کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ لولین کی عدالت میں پیش کیاگیا جہاں پولیس کی پانچ روز کیلئے ان کی حراستی پوچھ تاچھ طلب کی بقول پولیس کے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ کنہیا اور دیگرروپوش طالب علموں کے روابط کی تحقیقات کی جاسکے۔پولیس نے عدلیہ کو بتایا کہ کنہیا ان ملوثین کی پہچان کیلئے بھی پولیس کو مطلوب ہے جنہیں تقریب کے دوران قوم مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھاگیا ہے۔انہوں نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ یہ سیاسی کیس ہے اور انہیں صرف اس وجہ سے کیس میں پھنسایا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے یونین کے صدارتی انتخاب میں اے بی وی پی کے امیدوار کو شکست دی تھی۔سماعت کے دوران پولیس نے دعوی کیا کہ پانچ دیگر ملوثین ،عمر خالد ،آننت پرکاش ،راما ناگا،آشوتوش اور انربھان کیمپس سے روپوش ہوچکے ہیں۔ بہرحال دہلی کی جواہرلال نہرویونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ پیش آنے والے تازہ واقعے سے یہ بات الم نشرح ہورہی ہے کہ دنیا بھر میں کی جانی والی تنقید، ادیبوںکے ایوارڈز کی واپسی،سول سوسائٹی کا احتجاج اقلیتوں کے پریشان چہرے کچھ بھی زعفرانی انتہا پسندوں کو راہ راست پر نہ لاسکے،اورزعفرانی انتہا پسندوں نے اقلیتوں پر متواترحملوں کے بعد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔حالیہ واقعے میںبھارت میں سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یاآر ایس ایس کے ترجمان ہفت روزہ’’ پانچ جنیہ ‘‘نے دہلی کی معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی کوملک مخالف قوتوں کا اڈہ قرار دیا ہے۔ رسالے میں کہا گیا ہے کہ’’جواہرلال نہرویونیورسٹی ‘‘ میں ہندوقوم پرستی کو تقصیر سمجھا جاتا ہے،ہندوستانی ثقافت کو بھونڈے انداز میں پیش کیا جاتا ہے ، کشمیر سے فوج کے ہٹائے جانے کی حمایت کی جاتی ہے اور مختلف قسم کی دوسری ملک مخالف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔زعفرانی انتہا پسندوں کی جانب سے اس بیان کے بعد ہندوستان بھر میں شدید غم وغصے کا اظہار کیا جا رہاہے۔سوشل میڈیا میں بھی زبردست رد عمل آیا ہے اور بحث زوروں پر ہے۔