ایک پڑوسی ملک کے مسلمان شاعر نے جن کے والد اور دادا بھی شاعر تھے اور ان کے سسر بھی شاعرتھے، نے گزشتہ دنوں کیا خوب نظم کہی تھی، کہ جب بھی سنو نئی لگتی ہے اور مزہ دیتی ہے اور یہ نظم آراورپارکے حالات پرحسب حال لگتی ہے۔ پیمرا کے طے کردہ آداب کے پیش نظر نہ تو اس شاعر کا نام لکھنے کی جسارت کرسکتا ہوں اور نہ مجھ میں یارا ہے کہ اس مقبول اردو نظم کے کچھ بند آپ کی نذرکر سکوں البتہ اس نظم کا عنوان لکھنے میں کوئی حرج اور کسی پیمرا جاتی قاعدے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ اس نظم کا عنوان ہے ’’نیا حکم نامہ‘‘۔ اب ذرا وہ دوست جن کو اس نظم کے اگرکچھ ٹکڑے ،کچھ جملے ،کچھ بند ذہن میں ہوں تو انہیں یاد کریںاور انہیں دہرائیں تواندازہ ہو جائے گا کہ ہماری پیمرا نے جوتازہ بہ تازہ حکم نامہ جاری کیا اوراگلے ہی روز واپس بھی لے لیا، وہ ہوبہ ہو پڑوسی ملک کے شاعر، ابن شاعراورابن شاعرکی نظم کا سلیس ترجمہ ہے کہ جس میں ٹی وی میزبانوں کو اپنے اپنے گھونسلوں تک محدود رہنے اور دوسروں کے گھونسلوں میں نہ گھسنے اور اپنی سمت اور رفتار محدود رکھنے کامشورہ دیا گیا ہے۔ ایسے حکم ناموں سے ہم پاکستان میں مقبوضہ علاقوںجیسے حالات کی تصویر کشی کرکے خود کوناقد دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ موجودہ نازک قومی حالات میںمادر پدر آزادی سے ہٹ کر ایک روایتی اور باوقار دائرے میں صحافت اور میڈیا کو چلایا جا سکتا ہے لیکن عجلت میں لکھے گئے ایسے حکم ناموں سے گریز ضروری ہے جن سے سراسر آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر قدغن کا شائبہ ہو۔ جنرل ضیاالحق کے دور سے عمران خان کے دور تک ہم گھسٹتے گھسٹتے بند گلی میں جا کھڑے ہوئے ہیں ، اس سے آگے کچھ نہیں ہے، دوسری طرف کا راستہ بھی بند کر کے تاریکی اورگھٹن پیدا مت کیجئے ،اس سے عوام کا تو نقصان ہوگا ہی ،ملک ،معاشرت اور سب اداروں کا بھی نقصان ہوگا، ناقابل تلافی نقصان۔ پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ قومیں اندھیروں میں نہیں اجالوں میں آگے بڑھتی ہیں۔یہ بھی تودیکھنا ہو گا کہ حالات آج جہاں پہنچے ہیں یہاں تک لانے میں کون کتنا قصور وار ہے؟اس کی ایک مثال آپ کو دوں گا۔جیسے موجود ہ الیکٹرانک میڈیا جنرل(ر) پرویز مشرف کی آزاد خیالی کا شاخسانہ ہے، جو اسے منہ زور گھوڑا بنانے والے تھے ،سب سے پہلے اس کے سموں تلے خود روندے گئے ۔ ایک بار شیخ رشید احمد کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے ایئرپورٹ پر مل گئے،مجھے لاہورجانا تھا ۔ دونوں پروازوں کی اڑانوں میں ذرا سی تاخیر تھی تو ان سے چند لمحوں کی گفتگو کا موقع مل گیا۔تازہ تازہ وردی اتری تھی تو شیخ صاحب بھی وزارت سے باہر آئے ہوئے تھے۔میں نے ان سے استفسار کیا کہ شیخ صاحب یہ بیٹھے بٹھائے اچانک کیا ہوگیاہے ؟کل تک مکے دکھاکر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا تھا اور آج سب کے سب جائے اماں کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ شیخ صاحب نے مجھے گھور کر دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے ، ’’یار!ہم نے اپنے پائو ںپر خود کلہاڑا چلایاہے، ہمیں کالا کوٹ، کالا برقع اور کالا کیمرہ لے ڈوبا، ورنہ کس کی مجال تھی کہ ہمیں گھر بھیجتا۔‘‘ان کے یہی الفاظ میں نے تھوڑے ردوبدل کے ساتھ بعد میں کسی اخبار میں بھی پڑھے تھے۔ ایک لحاظ سے تویہ نیا حکم نامہ اچھا ہے کہ ہمارے ٹی وی میزبانوں نے بھی تو انتہا کردی تھی۔ ایک جمع دونہیں، تین نہیں بلکہ ایک جمع چار بن بیٹھے تھے۔ ان میں سے کچھ نے زندگی میںکبھی کسی نیوزروم کی جھلک دیکھی یا نہیں دیکھی لیکن بزعم خودصحافی تو تھے ہی ،یہ توان کا پہلا رتبہ ہوگیا۔قلم چھپا یا تواندر کی داڑھی باہر آگئی اور لگے دینے فتوے پہ فتوے ۔ فتوے بھی ایسے ایسے موضوعات پر کہ مولویوں کی گگھی بندھ جائے، یہ ہوگیاان کا دوسرا رتبہ۔کالے کوٹ اور کالی ٹائی کی ان کے آگے کیا حیثیت ہے، یہ اپنے تئیں وکیل بھی بن بیٹھے ، جب چاہا وکیل مدعی ہو گئے اور جب چاہا وکیل صفائی بن گئے،یہ تھاان کاتیسرارتبہ ۔پھر کالے کوٹ کے اوپرمنصفی کا کالا چغہ بھی اوڑھ لیااور لگے دینے فیصلے ۔ ملک میں عدالتیں بھی موجود ہیں ، عدالتوں کے باہر آوازیں بھی پڑ رہی ہیں، لیکن یہاں سے کچھ اور آوازیں نکل رہی ہیں جو عدالتوں کی اندر کی کمزورآوازوں کو پیچھے دھکیل کر ان پر غالب آرہی ہیں ، یہ تھا ان کا چوتھا رتبہ۔کوئی ان سے پوچھے کہ آپ محض ایک سوال یا تجزئیے کے لئے اسکرین کی زینت بنے تھے، یہ آپ کو مولوی مفتی ، وکیل مدعی، وکیل صفائی اور اس سے بڑھ کر منصفی کا روادار کس نے کردیا۔ جب صورت حال اس نہج پر پہنچ جائے تو پھر پیمرا ہو یا اس کے پیچھے کوئی اور ایسے ٹی وی میزبانوں کے لئے حکم نامہ تو بنتاہی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ، ہرطرف سے تھوڑی بہت معاملہ فہمی اور غیرجانبداری سے یہ چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں ، ان کے لئے اس قدر آمرانہ حکم ناموں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اہل صحافت تو پہلے بھی ایک ایسے ضابطہ اخلاق کے پابند ہوتے ہیں جو کسی نے ان پر مسلط نہیں کیا ہوتا بلکہ یہ ضابطہ اخلاق خود اختیاری ہے اور جب سے پاکستان بنا ہے یا پاکستان میں صحافت شروع ہوئی ہے ہر ایک نے یہ ضابطہ اخلاق رضاکارانہ خود پر لاگوکیا ہوا ہے۔ دراصل یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم کسی کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی بجائے اپنا گریبان اور اپنی زبان ٹھیک کریں ، اپنا گھر ٹھیک کریں، اپنی چیزیں ٹھیک کریں،سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ جب ہم خود درست راستے پر چل پڑیں گے تو کسی کے لئے چھڑی اٹھانے یا کسی کے لئے بھی کوئی ناگوار حکم نامہ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی کوئی حکم نامہ جاری کر کے اگلے ہی روز واپس لینے کی شرمندگی جھیلنا پڑے گی۔جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا،ناپائیدارہوگا۔ ٭٭٭٭٭