تہاڑجیل کے درودیوار تم اس بات کے گواہ رہنا کہ کشمیر کے فرزندان تمہارے نصب کردہ تختہ دار کو قبول توکرلیتے ہیں لیکن بھارت کی غلامی انہیں ہرگزقبول نہیں۔ظلم وبربریت ،سانحات کی تلخی، کڑواہٹ، سختی اور درشتگی سے کوئی انکارنہیںلیکن قاتل کومعلوم نہیں ہوتاکہ جسے وہ قتل کرتا ہے تواس کا لہوایسا پکار اٹھتا ہے کہ قاتل چھپ نہیں سکتا ۔ اگرکسی کواس میں شک ہے تو وہ افضل گوروکے قتل اورپھراس کے لہوکی پکارسننے کے لئے سری نگرکے لال چوک میں کھڑاہوجائے۔اسے پتاچلے گا کہ ملت اسلامیہ کشمیر بھارتی بربریت پرکس طرح کا ردعمل دیتے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ زندہ قومیں ان سرفروشوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتی ہیں، جو اپنا آج ، ان کے کل کے لیے قربان کرتے ہیں۔یہ ایسے ہیروزہوتے ہیں کہ جو آزادی کی جنگ لڑنے والوںکے لیے سرچشمہ قوت کا کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر اعلی مقاصد کیلئے لڑنا اور جان دینا ہی سب کچھ ہوا کرتا ہے۔یہ قوم و ملت کیلئے بھی ایک تابناک علامت ہوتے ہیں، قربانیوں کے مجسمہ ، جدوجہدکے ہیروز اور تحریک کے روشن مینار ہوتے ہیں۔ایسے سرفروش صدیوں تک یاد کئے جاتے ہیں۔عظیم مشن کیلئے اپنی جان کی بازی بھی لگاکریہ ہیروز قوم و ملت کوعزت،خوداری اورخودی کی منزل سے ہمکنارکرنے پر راہنمائی کرتے ہیںاورپھرقوم وملت کی ایمانی ذمہ داری نبتی ہے کہ وہ شہداء کے مشن کی تکمیل کرے،قوم وملت اس مشن کے ساتھ وفا کرتی ہے جس کی داغ بیل انہوں نے ڈالی ہوتی ہے ۔ کشمیرکا ہر شہید تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زاور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند ہیں کہ جواپنی شہادت سے قبل اپنی لو سے بے شمارچراغ روشن کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک سرزمین کشمیر پر بھارتی جبروقہر کے باعث ایک کے بعد ایک چراغ گل ہوتاچلاجا رہا ہے لیکن یہ چراغ ختم نہیں ہو رہے۔اگرچہ کشمیرکے ہرشہیدکی شہادت کی الگ الگ کہانی ہے لیکن سب ایک ہی عظیم مقصد ’’کشمیرکی آزادی ‘‘کے لئے اپنے جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زافضل گورواورمقبول بٹ جو بھارتی ظلم و ستم اور درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔دونوں تعلیم یافتہ اور خوش گفتار شخصیتیں تھیں۔ مقبول بٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ناپاک وجود کے خلاف عملی جدوجہدکی داغ بیل ڈالی اوراسلامیان کشمیرکوبھارتی غلامی سے نکلنے کے لئے مسلح جدوجہدکی راہ دکھادی ۔یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور مقبول بٹ شہید اور ان کے رفقائے کار کا ان تحریکوں سے متاثر ہونا بھی ناگزیر تھا ان ممالک میں الجیریا، فلسطین اور ویت نام وغیرہ شامل تھے۔ڈوگرہ استبدادکے خلاف کشمیری مسلمانوں کے اعلان جہاد کے بعدیہ پہلاموقع تھاکہ جب 12مقبول بٹ نے12جولائی 1965کو میر پور میں محاذ رائے شماری کے ایک پروگرام میں عسکری ونگ کی تجویز اور قرارداد پیش کی تاکہ جلد سے جلد ریاست جموں کشمیر کو ہندوسامراج کے چنگل سے آزادی دلائی جا سکے۔ ناموربھارتی دانشور اور مصنفہ ارون دتی رائے نے افضل گوروکے مقدمے اور سزائے موت کے فیصلے پر مرتبہ ایک کتاب کا دیباچہ تحریر کیا ہے۔ کتاب افضل گوروکی سزائے موت سے پہلے اور بعد میں لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کے دیباچے کے کچھ اقتباسات بھارت کے ہفت روزہ آئوٹ لک (Outlook)کے ایک شمارے میں منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ ان اقتباسات کے مطالعہ سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ بیرونی دنیا کے علاوہ بھارت کے اندر غیر جانبدار دانشور اور تجزیہ نگار اس معاملے پر کیا رائے رکھتے ہیں۔ارون دتی رائے نے بھارت کے ایک سابق ایڈووکیٹ جنرل کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ جس رازداری سے دنیا سے چھپا کر افضل گوروکی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ہے اس نے اس اقدام کی قانونی حیثیت پر سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ اپریل 2012ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایسے ملزمان کی سزائوں پر عملدرآمد کے مقدمے کی سماعت مکمل کی تھی۔جو سزا سے پہلے ہی طویل عرصہ قید خانے میںگزار چکے تھے اور افضل گورو کا معاملہ بھی اس مقدمے میں شامل تھا۔ حکومت نے اس کیس کے متوقع فیصلے کے نتائج سے بچنے کے لیے اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اسے تختہ دار پر لٹکانے پر غیر معمولی عجلت اور بے تابی کا مظاہرہ کیا مبادا افضل گرو کو پھانسی کے تختے پر لٹکانے کا یہ نادر موقع ہاتھ سے نکل جائے۔ عام آدمی قانونی موشگافیوں اور مقدمے کی تفصیلات میں الجھے بغیر یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا افضل گوروقصور وار تھا یا بے گناہ؟ اس کے جواب میں مصنفہ کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی پینگوین کی شائع کردہ مذکورہ کتاب افضل گوروتختہ دار پر (The Hanging of Afzal Guru)کا مطالعہ کرنے کی زحمت کر لے گا وہ اس نتیجے پر ہی پہنچے گا کہ افضل گورو پر عائد کردہ الزام کہ وہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ آوروں کا شناسا ساتھی تھا، کبھی بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔استغاثہ نے یہ دعویٰ کیا ہی نہیں کہ وہ حملہ آوروں میں شامل تھا یا یہ کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہے۔ اس لیے بھارتی سپریم کورٹ نے سزائے موت کا متنازعہ فیصلہ کسی براہ راست شہادت کی بنیاد پر نہیں دیا بلکہ صرف واقعاتی شہادت کا کمزور سہارا لیا۔ درحقیقت یہ فیصلہ بھارتی معاشرے کے اجتماعی ذہن کو مطمئن کرنے کی ایک کوشش کے سوا اور کچھ نہیں۔یہ فیصلہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ منطقی طور پر عدالت کو معقول حد تک شک کے عدالتی اصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے عدالت اس کام میں ناکام رہی اور ایک ایسے شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ سچی بات یہ ہے کہ افضل گوروکا جوڈیشل اور مقبول بٹ کے حراستی قتل سے بھارت نے اہل کشمیر یوںکویہ پیغام دیا کہ بھارت کی نظروں میں انکی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں اوروہ محض حشرات الارض ہیںلیکن کشمیری بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حق کے حصول کے معاملے میں بھارت کے سامنے کبھی سپرانداز نہیں ہونگے۔بھارت کی سیاسی پارٹیاں محض اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے کشمیر یوں کوسولی پر چڑھا کر یہ ثابت کررہیں ہیں کہ کشمیریوں کے سرقلم کر نے کے ناپاک اورخوفناک منصوبوں سے ہی اب بھارت کی سیاسی پارٹیاںکرسی اقتدار تک پہنچنے کی تگ ودوکررہی ہیں۔لیکن یہ ایک ایسا مکروہ دھندہ ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔