گذشتہ دنوں کراچی میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے سالانہ انتخابات تھے ، سوسائٹی کے رہنما حمید ہارون صاحب نے دوسروں کے علاوہ بندئہ ناچیز کو بھی خطاب کا موقع دیا ۔ میں نے اے پی این ایس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرائیکی میں تقریر کی ،مجھے خدشہ تھا کہ پنجاب سے آئے ہوئے دوست برا منائیں گے مگر دوسروں کے علاوہ سب سے زیادہ شاباش بزرگ صحافی جناب قاضی جمیل اطہر صاحب ، سجاد بخاری صاحب اور جبارخٹک صاحب نے دی، مجھے خوشی ہوئی کہ سابقہ تاریخ سے ہٹ کر، اب اہل دانش میں ماں بولیوں سے محبت کا جذبہ اُجاگر ہو رہا ہے ، میں نے سجاد بخاری صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کی کتاب ’’ذوالفقار علی بھٹو ولادت سے شہادت تک ‘‘بار بار پڑھی ہے مگر وہ کتاب میرے پاس اس وقت نہیں ہے ، اسی طرح میں نے قاضی جمیل اطہر صاحب کو بھی اُن کی کتاب ’’دیار مجدد سے داتا نگر تک‘‘کی مبارکباد دی ۔دونوں حضرات نے کمال شفقت کا ثبوت دیا اور اپنی اپنی کتابیں مجھے ڈاک سے بھجوا دیں ، کتابوں کا تبصرہ مجھ پر قرض ہے ، تبصرے سے پہلے بخاری صاحب کی کتاب کے مطالعے کے بعد یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کئے بغیر پاکستانی سیاست کا باب مکمل نہیں ہوتا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ قربانیاں بھٹو خاندان کی ہیں قربانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے ، یہ ٹھیک ہے کہ میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز بھی سیاست میں موجود ہیں اور انہوں نے بھی سیاسی اونچ نیچ دیکھی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بات کچھ اور ہے ۔ بھٹو کی پھانسی کا ذکر ذرائے ابلاغ میں پورا سال چلتا رہتا ہے ، آج میں ایک خط کا ذکر کروں گا جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھا گیا اور اُسے تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہو گئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی 21 جون 1978ء کو اپنی عظیم بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر خط لکھا جس میں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو میری سب سے پیاری بیٹی کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا :۔’’ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی ( جو خود بھی مقید ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اس طرح کی تکلیف میں مبتلا ہے ) اس کی جان بچانے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے ، یہ رابطہ سے زیادہ بڑا معاملہ ہے محبت و ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے ؟تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی، تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ، ان دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو تاکہ ان دونوں کا انضمام ہو سکے۔پیاری بیٹی !میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہون یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ، صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے ، سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ برصغیر کی پبلک زندگی میں کچھ کامیابیاں انعام و کرام کی مستحق ہیں ، جن کے ذریعہ مصیبت زدہ عوام تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں جن کے باعث کسی دیہاتی کی غمناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہوگئی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتی ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کیلئے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں ، تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو جب تک کہ تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو ، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو ۔ تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو ، میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں ۔ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں پیاری بیٹی ! میں اس جیل کی کوٹھڑی سے میں تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں ، جس سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا لیکن میں آپ کو عوام کا ہاتھ تحفہ میں دیتا ہوں ۔ میں تمہارے لئے کیا تقریب منعقد کر سکتا ہوں ، میں تمہیں ایک مشہور نام اور مشہور یاداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں ، تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور طاقت ور بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرو۔ میری پیاری بیٹی! کیا تمہیں یاد ہے 1957ء کے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں، تو ہم ’’ المرتضیٰ‘‘ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ صبح کا وقت موسم بڑا خوشگوار تھا۔ میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی ، ایک بیرل 22 اور دوسرا 480 کا تھا ۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گریا۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آ گرا تو تم نے چیخ مار دی ۔ تم نے اسے اپنی موجودگی میں دفن کرایا ۔ تم برابر چیختی رہیں ۔ تم نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ۔ایک مردہ طوطے نے 1957ء کے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو رلا دیا تھا ۔ 21 سال بعد وہ چھوٹی سی لڑکی ایک جوان لڑکی بن گئی ہے۔ جس کے اعصاب فولادی ہیں اور جو ظلم کی طویل ترین رات کی دہشت کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے ۔ حقیقتاً تم نے بلا شبہ یہ ثابت کر دیا کہ بہادر سپاہیوں کا خون تمہاری رگوں میں موجزن ہے۔ ‘‘ عظیم باپ کی عظیم بیٹی محترم بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 ء کو پیدا ہوئیں ۔ 15 سال کی عمر میں او لیول امتحان پاس کیا ۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکا چلی گئیں جہاں 1969ء سے 1973ء تک ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہیں ، انہوں نے 1973ء سے 1977 ء تک مارگریٹ ہال آکسفورڈ میں فلسفہ، سیاسیات اور اکنامکس کے مضامین پڑھے ۔ انہوں نے آکسفورڈ سے انٹرنیشنل لاء اور ڈپلومیسی کے مضامیں کا کورس کیا۔ 1976 ء میں انہیں آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب کیا گیا ۔ وہ پہلی ایشیائی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ 18 دسمبر 1987ء کو ان کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی ، ان کے تین بچے ہیں جن کے نام سندھی سرائیکی ثقافت کے مطابق بلاول ، بختاور اور آصفہ ہیں۔ ضیا الحق کے مارشل لاء اور بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی تاریخی اور جمہوری جدوجہد تاریخ کا بہت بڑا باپ ہے ۔