تمہارے ساتھ رہنا ہے مگر ایسے نہیں رہنا تمہیں گر کچھ نہیں سننا ہمیں بھی کچھ نہیں کہنا بھولا بسرا شعر عمران خاں کے اس بیان پر یاد آیا کہ کورونا کے ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔ مئی کا وسط مشکل وقت‘ سمارٹ لاک ڈائون کی طرف جانا ہو گا‘ کیا کیا جا سکتا ہے دنیا کی تاریخ بدل رہی ہے بلکہ یوں کہیں کہ کوئی تاریخ بدل رہا ہے۔ یہ تو خیر انہوں نے حوصلہ افزا بات کی کہ بحران سے نکلنے کے بعد پاکستانی تیزی سے اوپر جائے گا۔ شاید ایسے ہی جیسے سیلاب کے بعد زمینیں زیادہ ذرخیز ہو جاتی ہیں کہ پانی اپنے منرلز چھوڑ جاتا ہے۔ لکھنے والے تو لکھتے ہیں کہ جس طرح نائن الیون کا منظر نامہ بعد میں کھلا تھا‘ جس طرح عراق کے کیمیائی ہتھیاروں کی حقیقت بعداز بربادی عیاں ہوئی تھی‘ اسی طرح موجودہ وبا میں بھی حقیقت ہم پر کچھ عرصہ بعد آشکار ہو گی۔ فی الحال تو جو کچھ کرنا ہے وہ شیر ہی کو کرنا ہے۔ ہمارا حال تو خیر پہلے ہی پتلا تھا‘ اب یہ کشتی پانی رنگ کی ہو جائے گی: ہم پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی بہرحال سازش آخر بے نقاب ہو کر رہے گی‘ فی الحال تو چین کے اردگرد جال بنا جا رہا ہے میرا مگر یہ موضوع نہیں ہے میں تو کچھ ہلکی پھلکی اور دلچسپ سی باتیں کرنے کے موڈ میں ہوں کہ رات ہم چند دوست سماجی نہیں بلکہ جسمانی فاصلہ رکھے ہوئے اکٹھے ہوئے کہ ہمارے دوست عبدالغفور ایڈووکیٹ صاحب نے اداسی سے تنگ آ کر ایک دعوت کا اہتمام کر دیا۔ بس اکٹھے مل بیٹھنے کا بہانہ تھا۔ اس میں مولانا حمید حسین‘ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ ملک محمد شفیق اور ندیم خاں بھی شریک تھے۔ فکر و تدبر کا مرکز یقینا موجودہ لاک ڈائون اور نتیجہ میں اس کے رمضان المبارک پر اثرات تھے۔ ہمارے ملک محمد شفیق بہت ہی جوش اور جذبے سے بیان کرنے لگے کہ کورونا کو ہوا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے مسجد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران انہوں نے یہ نکتہ آفرینی بھی کی کہ انہوں نے خود تحقیق کی ہے اور خود قبرستانوں میں جا کر گورکنوں سے پوچھا تو پتہ چلا ہے کہ پچھلے دو ماہ سے سب سے کم جنازے قبرستان میں آئے ہیں۔ گورکن پریشان ہیں ان کا خیال ہے کہ جب سے ہسپتال اور کلینکس وغیرہ بند ہیں اور سوائے کورونا کے مریضوں کے وہ کسی کی طرف توجہ نہیں کر رہے تھے تو اس سے اموات بہت کم ہو گئی ہیں ان کا کہنے کا مطلب تھا کہ ہسپتالوں اور کلینکس وغیرہ میں مس ہینڈلنگ ہوتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جتنے مریض مر رہے ہیں وہ کورونا کے کھاتے ہی میں ڈالے جا رہے ہیں۔ میرے پیارے معزز قارئین یہ رائے ہے اور اس سے کالم نگار کا بھی متفق ہونا ضروری نہیں۔ حناتیموری کا شعر ذہن میں آ گیا: کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں اک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد تفنن برطرف ‘ حکومت بہت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ مولا بخش چانڈیوں کے بقول حکومت یعنی وفاق کورونا کی بجائے سندھ کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ ایک کانفرنس سے تو کچھ شک ہمیں بھی گزرا۔ خان صاحب کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ سیاست کریں گے تو پھر سیاست تو سیاست ہے‘ خیر ہمیں شیخ رشید کے بیان پر بڑا مزہ آیا۔ اس بیان کا تذکرہ محترم عارف نظامی بھی کر چکے ہیں کہ بقول شیخ صاحب یہ عمران خاں کا کارنامہ ہے کہ وہ پاکستان کو ان 35ملکوں میں شامل کروانے میں کامیاب ہو گئے جنہیں کورونا کے حوالے سے امداد دی جائے گی یا پھر جنہیں ویسے بھی امداد دی جاتی ہے۔ اس بات میں معصومیت اور انجانا پن ہے کہ اس کا مطلب مختصراً یہ نکلتا ہے کہ پاکستان پہلے امداد لینے والوں میں تھا اب خیرات لینے والوں میں شامل ہو گیا۔ گویا یہ امداد سے خرات تک کا سفر ہے اور یہ باعث عزت تو ہرگز نہیں۔ ہائے ہائے: ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا ویسے حکومت کے بعض فیصلے بڑے سمارٹ ہیں‘ سمارٹ لاک ڈائون کی طرح۔ مثلاً میں اس فیصلے سے لطف اٹھاتا رہا کہ مسجدوں میں پچاس سال سے اوپر کے لوگ نہیں آئیں گے۔ یہ حکومتی اذھان کی کامیابی ہی گنی جائے گی کہ یک مشت انہوں نے 70فیصدی نمازیوں کو مسجد آنے سے روک دیا۔ آپ بھی مسلمان ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسجد میں جانے کی پابندی ساٹھ اور ستر سے اوپر کے لوگ ہی کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ فیصلہ کرنے والے علماء کرام بھی تقریباً اب گھر ہی نماز پڑھیں گے۔ کچھ بچوں کی وجہ سے رک جائیں گے کہ وہ بچوں کو ساتھ لاتے تھے۔ دوسری چھ فٹ کے فاصلے کی پابندی بھی رکاوٹ بن جائے گی۔ مجھے پروفیسر آفتاب نے بتایا کہ وہ تو اپنے بچوں اور گھر والوں کو خود قرآن پاک سناتے ہیں اور یہ ناظرہ پڑھتے ہیں۔ ویسے بھی تراویح تو آتی ہی نوافل میں ہیں‘ اصل بات تو قرآن پڑھنا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے جو ہونے جا رہا ہے کہ لوگوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ آخر کورونا کا اس قدر خوف کیوں پھیلایا گیا میڈیا معاونت کر رہا ہے بلکہ دو ہاتھ آگے ہے۔ اکثر کو مذہب سے اللہ واسطے کی پرخاش ہے۔ بنیادی طور پر ڈبلیو ایچ او کے آرڈرز ہی چل رہے ہیں۔ علماء کا تو کاندھا استعمال کیا گیا ہے۔ کہنے والے تو آغاز ہی میں کہتے تھے کہ ایٹ رینڈم ٹیسٹ کر کے‘ صرف متاثرہ علاقوں میں لاک ڈائون یا بندوبست کیا جائے۔ یہ جو سب کچھ باندھ کر رکھ دیا گیا ہے‘ اس کے پیچھے کچھ تو ہے۔ پہلے سعودیہ میں سینما کھلوائے گئے۔ اب تو وہاں مکہ اور مدینہ میں مساجد بند پڑی ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کیا۔ کہاں اسلم کولسری یاد آئے: یعنی ترتیب کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے کہ ہر کوئی اٹھ کر مولوی کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ درجنوں جگہیں ہیں جہاں لوگ اکٹھے معاملات دنیا چلا رہے ہیں۔ مگر ٹارگٹ صرف مسجد ہوئی۔ اس کے باوجود بھی علما نے پابندیاں تسلیم کر لیں۔ ایک ذمہ داری علماء پر آن پڑی ہے کہ وہ اپنے فرقے وغیرہ سے نکل کر ایک ہو جائیں وگرنہ تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ آخر میں سب کو رمضان المبارک۔