لوگوں نے اخبار پڑھنا کیوں چھوڑ دیئے ؟ یہ ایک سوال ہے ، اس کی اصل وجہ کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور موبائل فونز بتائی جاتی ہے ، مگر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اخبارات میں خوش خبریں کم اور خشک خبریں زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس میں اخبارات کا بھی قصور نہیں کہ ملک میں جو کچھ ہوگا وہی اخبارات میں آئے گا۔ آج کا روزنامہ 92 نیوز میرے سامنے ہے ۔ ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس میں وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید احمد، سیکرٹری ریلویز اور سی ای او ریلویز کو طلب کر لیا ہے، دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے سے بڑھ کر کرپٹ پاکستان میں کوئی اور ادارہ نہیں، انہوں نے کہا کہ محکمہ سیاست میں پڑا ہوا ہے روز حکومت گرا اور بنا رہا ہے، جبکہ اپنا کام وزارت سنبھال نہیں پا رہا، ریلوے مسافر اور مال گاڑیاں نہیں چل رہیں، ریلوے پر سفر کرنے والا ہر فرد خطرے میں سفر کر رہا ہے، مزید سماعت آج ہو گی، روزنامہ 92 نیوز کی اور خبر کے مطابق نیا سال بھی تبدیلی نہ لا سکا، ٹرینوں کے حادثات میں مسلسل اضافہ، ٹریفک افسران اور شعبہ انجینئرنگ و مکینیکل کی غفلت سے ٹرینیں پٹری پر چلنے کی بجائے پٹری سے اترنے لگیں۔ ایک اور خبر کے مطابق کرونا کی تباہ کاریاں جاری، چین میں 80 لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے، دو ہزار پاکستانی طلبہ چین میں پھنس گئے ہیں، دوسری طرف لاہور میں وزیر اعلیٰ کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں کرونا کی تشخیصی کٹس ہنگامی طو رپر منگوانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق ڈی آئی خان چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے راکٹ اور بمبوں سے حملہ کیا ہے، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو عظیم ملک بنا کر دم لوں گا، دوسری طرف وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے ملتان کو بگ سٹی قرار دینے کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے مگر یہ اعلان سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے بھی متعدد مرتبہ کیا اور ایک مرتبہ تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں شہباز شریف نے مل کر کیا مگر عملدرآمد آج تک نہیں ہوا، یہی حشر سب سول سیکرٹریٹ کا ہوا ہے کہ سابق حکومت کے دور میں بھی نا سیکرٹریٹ بنا اور نہ صوبہ، وسیب کے لوگ سخت مایوسیوں کا شکار ہیں، باوجود اس کے کہ یہ بات غیر جمہوری عمل کے زمرے میں آتی ہے مگر وسیب کے لوگ مایوس ہو کر مقتدر قوتوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے اقدامات کریں کہ اسمبلی سے فاٹا نشستوں میں اضافے کے بل کے ساتھ ساتھ آرمی ایکٹ کا ترمیمی بل اسمبلی سے پاس ہو سکتا ہے ، سرائیکی صوبے کا کیوں نہیں؟ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ وسیب کے لوگ سخت مایوسی اور بد دلی کا شکار ہیں اور وہ صرف حکمرانوں ہی نہیں اُن ارکان اسمبلی کے بھی سخت خلاف ہو چکے ہیں جو وسیب کے حقوق اور صوبے کے مسئلے پر خاموش ہیں، وسیب کے لوگوں کی پریشانی کو دیکھ کر دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے وسیب کا رخ کر لیا ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح پہلے پونم بنائی گئی تھی ، اسی طرح کا نیا اتحاد وجود میں آئے ۔ اس سلسلے میں سرائیکی رہنما خواجہ غلام فرید کوریجہ اور سندھی رہنما ڈاکٹر قادر مگسی کے درمیان مذاکرات ہوئے ۔ بلوچ قوم پرست رہنما رؤف خان ساسولی تین دن ملتان میں رہے اور مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔ رؤف خان ساسولی نے کہا کہ قوم پرستو ں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے ۔اگر صوبہ نہ بنا اور وفاق کو متوازن کرنے کی تجویز نہ سوچی گئی تو سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے 10ارکان اسمبلی ہیں انہوں نے حکومت کو دقت ڈال رکھا ہے مگر سرائیکی خطے کے 50سے زائد ارکان اسمبلی جنہوں نے صوبے کے نام پر ووٹ لئے کہاں مر گئے ہیں۔ وہ اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر کیوں بات نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ گلبرگ لاہور میں رہنے والے جاگیردار ،گلگشت ملتان آنے کو تیار نہیں ۔انگریز دور سے لیکرآج تک اقتدار کے مراکز کا طواف کرتے آ رہے ہیں ۔ان کے خلاف بغاوت کی ضرورت ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور تحریک انصاف کرسی کلب ہیں ۔ اسی طرح نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر عبدالحئی خان بلوچ بھی ملتان آئے اور دو دن یہاں قیام کیا ۔ ڈاکٹر عبدالحئی خان بلوچ نے کہا کہ ہم صوبے کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ صوبے کا مسئلہ وسیب کے کروڑوں افراد کے ساتھ وفاق پاکستان کے توازن کا بھی مسئلہ ہے کہ اس سے وفاق پاکستان مضبوط اور مستحکم ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ اگر فاٹا نشستوں میں اضافے اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پاس ہو سکتا ہے تو صوبے کا کیوں نہیں۔ ہم سرائیکی کو الگ اور مکمل قوم سمجھتے ہیں ان کا اپنا وطن ہے ، اپنی تہذیب ہے اور ثقافت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی ، سندھی اور بلوچ کو لڑانے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سرائیکی مزدور قتل ہوئے ہمیں اس پر دُکھ اور صدمہ ہے ۔ کوئی مقامی ایسا نہیں کر سکتا ۔ اصل قاتلوں کو گرفتارہونا چاہیئے اور مسنگ پرسن کا بھی مسئلہ حل ہونا چاہیئے ۔ مظلوم اور محکوم قوموں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے ۔ انٹرنیشنل سرائیکی ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر احسان چنگوانی کی طرف سے سرائیکستان ہاؤس میں منعقد کی گئی دستخطی مہم کے افتتاح کے موقع پر سرائیکی رہنماؤں خواجہ غلام فرید کوریجہ ، اکبر خان ملکانی ، سجاد خان ملکانی، عاشق خان صدقانی ، صغیر خان احمدانی ، غلام اکبر خان کھوسہ ، فرید ساجد لغاری اور دوسروں نے خطاب کیا۔ تقریب کے میزبان ڈاکٹر احسان خان چنگوانی نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ پہلے مرحلے میں ایک لاکھ افراد کے دستخط صدر ،وزیراعظم ، سپیکر قومی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ اور ارکان اسمبلی کو بھیجے جائیں گے ۔ سرائیکی رہنماؤں نے کہا کہ ہم صرف سرائیکی زبان کی بات نہیں کرتے بلکہ پاکستان میں بولی جانیوالی تمام زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ہم تمام زبانوں سے پیار کرتے ہیں ، پاکستان میں تمام زبانوں کو اس کا حق ملنا چاہئے ۔