کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ بس یوں سمجھئے کہ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ آج مجھے اپنے دوست جمیل احمد عدیل کے ایک شاہکار کام کا تذکرہ کرنا ہے۔ اپنے دوستوں میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور جمیل احمد عدیل دو ایسے تخلیق کار ہیں جو کچھ زیادہ ہی عالم فاضل ہیں اور میں ان کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ بندے کو اتنا پڑھا لکھا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ وہ شاہکار اصل میں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کا مجلہ فاران ہے۔ فاران کی چوٹیاں تو آپ نے سن رکھی ہوں گی، انہیں سر بہرحال ہمارے دوست نے کیا ہے۔ مجھے تو اس میں شعری انتخاب نے بھی بہت متاثر کیا: تو بول اٹھے تو لفظ خوشبو، تو سچ لے تو خیال خوشبو ترے تکلم سے بن گیا ہے جواب خوشبو سوال خوشبو یہ شعر میں نے سابق پرنسپل عبدالطیف عثمانی صاحب کے انٹرویو سے اٹھایا ہے۔ کالج کا یہ میگزین عام میگزین ہرگز نہیں ہے یہ خوبصورت ایڈیٹر کے حس حسن و جمال کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایک دستاویز ہے۔ اس میں آپ کو ایسے ایسے مضامین ملیں گے کہ آپ سرشار ہو جائیں گے مثلاً پروفیسر محمد شہباز کا جستجو کیا ہے انتظار صاحب کے حوالے سے ہے۔ انتظار صاحب کی تحریر کا مزہ لیجئے۔ ’’اے لو اس ذکر پر مجھے اپنی غلیل یاد آ گئی۔ میرے چچا تو بندوق سے شکار کرتے تھے اور ایک شکار کرتے تھے۔ مرغابی سے لے کر ہرن بلکہ نیل گائے تک جو بھی زد میں آ جائے گا مگر میں اپنی غلیل کے زور پر شکاری بنا ہوا تھا مگر ایسا شکاری جس کی غلیل پر کسی چڑیا کسی پدی کا خون نہیں ہے‘‘۔ آپ ان کی آب بیتی کے حوالے سے پڑھتے جائیے اور سردھنتے جائیے۔ اسی طرح دوسرے مضامین بھی کمال ہیں۔ ویسے تو اس مجلے کا پہلا مضمون ہی آخری مضمون ہے۔ علم وفضل کا اک جہان اس میں بندہے۔ ظاہر ہے کہ سید محمد وجیہہ السیما عرفانی صاحب کا لکھا ہوا ہے اور موضوع کشف المحجوب ہے۔ سیدنا علی الہجویری حضرت داتا گنج بخشؒ کے حوالے سے ایمان افروز باتیں کی ہیں۔ آپ پر صوفی ازم کی اصل روح آشکار ہوتی ہے کہ اس میں بنیادی بات شرع ہی ہے۔ وجیہ السیما عرفانی صاحب سے میں مل بھی چکا ہوں۔ اب ان کے جانشین حبیب عرفانی صاحب ہیں اور ان کا فیض سندرشریف میں جاری ہے۔ وجیہہ السیما عرفانی کے دو اشعار آپ نے بھی سن رکھے ہوں گے: غنچہ شوق لگا ہے کھلنے پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے میں نے چھپ کر تری باتیں کی تھیں جانے کب جان لیا محفل نے اچھا تو ذکر ہورہا تھا فاران کا۔ اصل میں اس میگزین کے پیچھے بہت سی کاوش اور تحریک سیف اللہ خالد کی بھی ہے۔ میں اس کی تاریخ کے حوالے سے بات کررہا ہوں۔ ایک وقت میں ایسے لگتا تھا کہ سیف اللہ خالد اس دنیا میں صرف فاران نکالنے کے لیے ہی آئے ہیں۔ ہمہ وقت مصرف کبھی گولڈن جوبلی نمبر آ رہا ہے تو کبھی کوئی۔ انگریزی حصے میں میں بھی ایڈیٹر رہا مگر یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں شمع تاثیر کا کنوینئر تھا جو میرے مزاج کے مطابق تھا۔ اس سے پہلے امجد اسلام امجد صاحب یہ مشاعرہ کرواتے تھے۔ بعدازاں یہ اعزاز مجھے ملا مگر صاحب فاران میگزین نکالنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اب اس بڑے کام کے لیے جمیل احمد عدیل سب سے زیادہ موزوں شخص اس کالج کو میسر آیا۔ وہ خود بھی ایسا نثار ہے کہ میں اس کا مداح ہوں۔ بچوں کی خوش قسمتی کہ ایسا نوک پلک سنوارنے والا ادیب اور افسانہ نگار میسر آ گیا۔ میرے ساتھ کالج والوں کی محبت کہ جہاں میری ریٹائرمنٹ پر انہوں نے پروگرامز کئے وہیں فاران میں میرے لیے گوشہ سعداللہ شاہ رکھا۔ ان کا حسن نظر۔ یہاں موجودہ پرنسپل محمد اسلم پرویز کا تذکرہ بھی ضروری کہ وہ غیرنصابی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ تاہم فاران کو میں نصابی سرگرمی سمجھتا ہوں۔ وائس پرنسپل ڈاکٹر محمد نعیم بزمی بھی اہم کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اصغر یزدانی، پروفیسر جواد عمر اور پروفیسر رحیم احسن نے پرنسپل عبدالطیف عثمانی کا انٹرویو خوب کیا ہے۔ ڈاکٹر اصغر یزدانی تو کالج بولیٹن بھی نکالتے ہیں۔ اچھا اس میگزین میں اردو شاعری کا انتخاب ایک طرف، اس میگزین میں پروفیسر ڈاکٹر محمد عاصم ندیم کا پنجاب رنگ دیکھنے کے لائق ہے۔ عاصم ہمارے دوست عباس نجمی کے چھوٹے بھائی ہیں اور شعبہ پنجابی کے سربراہ۔ اس حصے میں آپ کو نایاب شاعری بھی ملے گی۔ کچھ تذکرہ انگریزی حصے کا بھی ہو جائے جس کے ایڈیٹر پروفیسر عرفان یوسف ہیں اور وہ بھی بنیادی طور پر اردو کے کالم نگار اور دانشور ہیں۔ تاہم پروفیسر عامر یوسف اور پروفیسر معاذ صدیقی نے خوب اس حصے کو اجاگر کیا ہے۔ آج کل انگریزی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر عمرالدین کی سربراہی میں ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور پھر مرنجاں مرنج ملک الطاف صاحب بھی تو یہاں ہیں۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز اور اس کے میگزین فاران کی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو بنانے والے حمید احمد خاں جیسے بڑے لوگ ہیں۔ قارئین اس فاران کے ایک نہایت عمدہ واقعہ نے بہت متاثر کیا۔ آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کیسے کیسے لوگ یہاں رہے۔ پروفیسر افتخار احمد صدیقی کالج کو چھوڑ کر پنجاب یونیورسٹی جانے لگے تو حمید احمد خان ،جوکہ پرنسپل تھے اور ادبی دنیا میں ترقی پسند تحریک کے جنرل سیکرٹری، نے پروفیسر افتخار احمد صدیقی کے استعفیٰ پر لکھا: یہ میرا استعفیٰ لکھا ہوا رکھا ہے۔ آپ کی درخواست کو فارورڈ کرنے سے پہلے میں اپنے استعفیٰ پر دستخط کروں گا کیونکہ جب آپ جیسے ساتھی نہ رہیں تو میں بھی اس کالج میں رہنا نہیں چاہتا۔ افتخار صاحب کی زبان سے صرف یہ نکلا تو اچھا یہ بات ہے تو میں اس کالج ہی میں رہوں گا۔ کیسے اچھے اور بڑے لوگ تھے۔ اس میگزین میں تصویری حصہ بھی بہت اچھا ہے۔ دو شعروں کے ساتھ اجازت: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے ایک لمحے کی مسافت ہی بہت ہوتی ہے ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے