حضرتِ اعلیٰ گولڑوی، پیر سیّد مہر علی شاہ ؒ کے خانوادے کے گل سر سبد ، چشتی سلسلے کی عظیم المرتبت روحانی شخصیت، حضرت الشیخ السیّد شاہ عبد الحق الگیلانی ؒ ،جو دنیائے تصّوف و طریقت اور اہل ِ محبت و حقیقت میں’’چھوٹے لالہ جی‘‘ کے نام سے معروف تھے، گذشتہ جمعرات دنیا سے پردہ فرما گئے ۔ اسد اللہ غالب نے تو نجانے کس کے بچھڑنے پہ کہا تھا: مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیئے لیکن وہ ۔۔۔ جو جذب و مستی اور مہر و وفاکے کوچے کی زینت اور فقر و درویشی اور تصوف و معرفت کی محفل کا اعزاز تھے۔۔۔ وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔زمانہ جب ہوا وہوس کے ہاتھوں بے حال ہو کر۔۔۔ قناعت ، سادگی، وفا شعاری اور بے نیازی کی طلب اور تڑپ میں نکلے گا، تو حضرت لالہ ؒجی صاحب ان کی راہنمائی کرتے ہوئے، فرمارہے ہوں گے، کہ اگر سکون اور عافیت چاہتے ہوتو۔۔۔ ہماری طرح جینے کا ڈھنگ سیکھو!ہم ہی تھے کہ تقریباً ایک صدی۔۔۔ اس عظیم مسند اورسطوت کے جِلو میں پروان چڑھے ، اور کم و بیش رُبع صدی اس نظام کے تنِ تنہاوارث اور پیر مہر علی شاہؒ کے’’مسندنشین‘‘ رہے ، لیکن اس سسٹم کے اعزاز و وقار پر کبھی کوئی آنچ نہ آنے دی اور ’’نفس مطمنہ‘‘ یعنی نہایت مطمئن روح کے ساتھ رخصت ہوگئے اور آگے بھی سرخرویاں اور سر بلندیاں ہی نصیب میں ہونگی۔(انشا اللہ) جانے والے کی جبیں روشن ہے اِس ظلمات میں جسطرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں آپ ؒ ، امام المسلمین، رئیس المجدّدین، اعلیٰ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے پوتے اور پیر سیّد غلام محی الدین الگیلانی المعروف حضرت بابوجیؒ کے نورِنظر تھے ۔ 1926 میں گولڑہ شریف میں پیداہو ئے، زندگی کے ابتدائی گیارہ سال ، اپنے دادا کے فیضِ صحبت سے مستفید ہونے کا موقع میسر آیا ، حضرت ِ اعلیٰ گولڑوی ؒ 29 صفر المظفر بمطابق11 مئی1937 دنیا سے رخصت ہوئے ۔۔۔اس موقع پر حضرت بابو جی ؒ پر جو کیفیت گزری ، اس کی داستان زار بھی اپنی جگہ ہے ۔۔۔ حضرت شاہ عبد الحق الگیلانیؒکی عمر مبارک، اس وقت 11 سال تھی ، درد سے لبریز، وہ سارے مناظر انہوں نے دیکھے کہ کس طرح ملک بھر کے مشائخ ، حضرت بابو جی ؒ کی دستار بندی کے لیے ، دستار یں ساتھ لیئے حاضر ی سے بہرہ مند ہوتے، لیکن پگڑی، سجادگی اور دستار بندی کا ذکر آتے ہی حضرت بابو جیؒ پر شدیدرقت طاری ہوجاتی۔ فرماتے ’’وہ اپنی جگہ آپ ہی ہیں، میں تو صرف خدمت کے لیے ہوں‘‘ یہ بات سن کر ان حضرات پر بھی گریہ طاری ہوجاتا۔ چنانچہ مجلس کے ’’مقامِ صدر‘‘ پر جہاں حضرت قبلہ عالم گولڑوی کا مصلیٰ بچھتا وہ آپؒ کے وصال کے بعد بھی اسی طرح بچھتا رہا اور حضرت بابوجی ؒ اس کے ایک جانب دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے۔ یہی معمول آج تک برقرار ہے۔حضرت بابو جی ؒ نے گولڑہ شریف کا درگاہی نظام جن مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ، اس پر حضرت لالہ جی ؒ صاحب نے بڑی مضبوطی کے ساتھ کار بند رہے اور اپنی دانست اور بساط کے مطابق اس کی زیر، زبر بھی ادھر ، اُدھر نہ ہونے دی۔ حضرت لالہ جی صاحبؒ بلاشبہ ایک عظیم المرتبت علمی، دینی اور روحانی خانوادے کے فردِ وحید اور ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں اور آسائشوں سے مالا مال۔۔۔ لیکن حضرت با بو جی صاحبؒ نے آپ کو خاص تدریسی اور تربیتی مراحل سے گزارا اور ایک عام طالب علم کی طرح مشقت اور محنت کو آپ کی طبیعت کا حصہ بنایا۔حصول ِ علم کے لیے جامعہ عباسیہ بہاولپور کا انتخاب ہوا، ’’ نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان خامس عباسی نے سریر آرائے سلطنت ہونے کے بعد، جامعہ الازہر مصر کی طرز پر، بہاولپور میں ایک عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی، جس کا اولین شیخ الجامعہ( وائس چانسلر)بحر العلوم علامہ غلام محمد محدث گھوٹوی کو بنایا گیا ، جو عالمی شہرت کے حامل ماہر تعلیم اور حضرت ِ اعلیٰ گولڑوی ؒ کے منظورِ نظر ، علامہ فضل حق رام پوری کے تلمیذ خا ص علامہ عبد الحق خیر آبادی کے شاگر دتھے۔ ریاست بہاولپور میں محدث گھوٹوی کو وزیر معارف اور ’’شیخ الاسلام‘‘ کا اعزاز بھی میسر تھا ۔ جامعہ عباسیہ میں عام پرائمری پاس طا لبعلم،’’ پہلی عربی جماعت‘‘ میں داخلے کا اہل ہوتا ، یہاں دس سال تعلیم مکمل کرنے پر ’’علّامہ‘کی ڈگری کا حقدارقرار پاتا، ازاں بعد کوئی چاہتا تو پی ایچ ڈی بھی کرسکتا تھا، جو کہ ’’ الشیخ فی التشریع الاسلامی‘‘ کے نام سے رائج تھی۔ جامعہ عباسیہ کے تعلیمی مدارج:اولیٰ عالم، ثانیہ عالم، ثالثہ عالم، رابعہ عالم ۔ اولیٰ فاضل، ثانیہ فاضل، ثالثہ فاضل۔ اولیٰ علامہ، ثانیہ علامہ، ثالثہ علامہ پر مشتمل تھے ۔مذکورہ دس درجات کے ساتھ جامعہ کا فارغ التحصیل دینی سکالر ہونے کے ساتھ ، سرٹیفائیڈ اور ریگولر گریجوایٹ بنتا۔ جامعہ عباسیہ بہاولپور، جامعہ الازہر مصر کے بعد، عالمِ اسلام کی دوسری بڑی درسگاہ تھی ، جہاں بر صغیر پاک وہند کے علاوہ افغانستان، ترکستان، تاجکستان، ماورأا لنہر، بخارا، تاشقند وسط ایشیا، جاوا، سماٹرا، انڈونیشیا، ملائیشیااور دیگر ممالک سے کثیر تعداد میں سٹوڈنٹس حصولِ علم کے لیے حاضر ہوتے ، سر سیّد احمد خاں کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سائنسی علوم،انگریزی سوچ اور’’جدیدیت‘‘ کی علمبردار تھی ، ان کاجب ایک اعلیٰ سطحی وفد جامعہ عباسیہ کے دورے پہ آیا ، تو نصابِ تعلیم، لائبریری، کلاس رومز، طرزِ تدریس، قدیم اور جدید علوم کا امتزاج اور علوم عصریہ اور عقلیہ کی اعلیٰ تدریس دیکھ دنگ رہ گئے۔موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسی جامعہ عباسیہ کی ’’باقیاتُ الصالحات‘‘ ہے۔ حضرت شاہ عبد الحق گیلانی رحمتہ اللہ علیہ (بعمر13 سال)اپنے برادرِ کلاں حضرت سید غلام معین الدین شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ بہاولپور میں مقیم رہے ۔ اور دنیائے اسلام کے اس عظیم علمی مرکزسے اکتسابِ علم کیا۔ آپؒ گولڑہ شریف سے بہاولپور عام ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتے ، بعض اوقات جس میں سیٹ بھی میسر نہ آتی، جس میں پنہاں حکمت کے حوالے سے حضرت بابوجیؒ فرماتے ’’ انہیںدوسروں کی تکلیف کا احساس تب ہوگا، جب یہ خود تکلیف اٹھائیں گے ۔ میں چاہتا ہوں کل کو جب یہ خانقاہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو عام آدمی کے درد، غرض اور ضرورت کا احساس اپنے اندر محسوس کریں ۔ حضرت لالہ جی صاحب درگاہ کے امور کے حوالے سے اعلیٰ حضرت گولڑوی ؒ کے مشرب پر سختی سے کار بند رہے ۔ آپ ؒکو علوم متداولہ اور عصری موضو عات پر بڑی دسترس حاصل تھی ، درگاہ میں حاضری کا اعزاز پانے والوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ، جن میں بالخصوص تصوف اور خانقا ہوں پر نَقد و نظر والوں کی بھی کمی نہیں تھی ، بڑے مشکل سوالات و اعتراضات کو مختصر اور مدلل پیرائے میں ۔۔۔ دو،ایک جملوں میں ہی ایسا نپٹا تے کہ سننے والا حیران رہ جاتا،ایک دفعہ ، ایک کہنہ مشق صحافی عرض گذار ہوا کہ، بعض علماء تصوف پر اعتراضات کرتے اور اس کو ایک ’’متوازی دین‘‘قرار دیتے ہیں،آپؒ نے نہایت سادگی سے مسکراتے ہوئے ، اس مشکل با ت پر بہت مختصر سا جملہ ارشاد فرمایا کہ : تصوف عین ِ اسلام ہے ،اور اگر یہ اسلام کے خلاف ہے ،تو پھر کوئی مسلمان ہی نہیں رہے گا ، اس لیے کہ بالخصوص اس خطے میں تو اسلام پہنچا ہی صوفیاء کی بدولت ہے اوراگر وہ دین کی روح اور اس کی اصل سے نا آشنا تھے، تو پھر انہوں نے اس کو دوسروں تک کیسے پہنچایا اور اس کی تاثیر سے بر صغیر میں اتنا بڑا دینی اور روحانی انقلاب کیسے بر پا ہوگیا؟اس سوال پر کہ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کی تعلیمات کا نچوڑ کیا ہے ؟تو آپ نے کمال اختصار سے سمند ر کو کوزے میں بند کیا ، فرمایا ’’اسلام اور صرف اسلام‘‘۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔