میاں نواز شریف 1985ء میں وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے لاہور کی کی ترقی کے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ داتا دربار کی ترقی و توسیع کے لئے فیزبلٹی تیار کرائی ، بعد ازاں داتا دربار کی توسیع کے لئے آس پاس کی مارکیٹوں کو مسمار کر کے دوکانداروں کو کروڑوں روپے کے معاوضے دیئے گئے ، داتا دربار میں زائرین کیلئے رہائش گاہیں ، لنگر خانہ ، آڈیٹوریم ، قرآن کمپلیکس و دیگر عمارات تعمیر ہوئیں ، منصوبے پر اربوں کے اخراجات آئے ۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بھی پہلا کام تونسہ شریف کیلئے یہی کرنا چاہیے تھا اور چاکر اعظم یونیورسٹی کی بجائے سب سے پہلے تونسہ میں شاہ سلیمان تونسویؒ یونیورسٹی بنوانی چاہئے تھی کہ حضرت شاہ سلیمان تونسوی کی وسیب کے ساتھ ساتھ انسانی خدمت کے حوالے سے بہت خدمات ہیں اور آج بھی بزرگان دین کے مزارات انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ سیاسی رنجشیں چلتی رہتی ہیں ، اقتدار بھی آنی جانی چیز ہے مگر اچھائی کا صلہ اچھائی کی صورت میں ہمیشہ ملتا ہے اور سیاسی انتقام ایسی آگ ہے جو پھونکوں سے بڑھتی ہے بجھتی نہیں۔ اخبارات میں احتجاج کی مسلسل خبریں شائع ہو رہی ہیں ، مفتی منیب الرحمن نے اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ مدرسہ محمودیہ کو بحال کیا جائے ، مدرسے میں مداخلت ختم کی جائے اور دینی مدارس اور حکومت کے درمیان اعتماد کی فضا کو مجروح نہ ہونے دیا جائے ۔ لاہور میں ہونے والے اجلاس کے دوران درگاہوں کے مشائخ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ اوقاف نے خواجہ نصر المحمود تونسوی کی اراضی پر ناجائز قبضہ کیا ہے ، جس کی مشائخ مذمت کرتے ہیں اور مدرسے کی زمین واگزار کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1907ء میں مدرسہ محمودیہ کی بنیاد رکھی گئی ، ساڑھے 12 مربع زرخیز ذاتی زمین خواجہ محمد محمود نے مدرسہ کو دی ۔ اب تک ہزاروں تشنگانِ کو تعلیم حاصل ہوئی ، مدرسہ کا نظم و نسب بہترین ہے ، تنظیم المدارس سے اس کا الحاق ہے ۔ مدرسہ طلباء کے قیام و طعام کا کفیل ہے ،2018ء کے امتحان نے مدرسہ کے طلباء کو نمایاں مقام حاصل ہوا۔ ان اوصاف کی بنیاد پر مدرسے کی حوصلہ افزائی کی بجائے انتقامی کاروائی نہیں ہونی چاہئے ۔ خاندانی پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ محمد سلیمان تونسویؒ 1770ء میں گڑ گوجی بلوچستان میں پیدا ہوئے جو تونسہ سے تیس میل دور مغرب میں واقع ہے ۔آپ کے والد کا نام زکریا بن عبدالوہاب بن عمرخان تھا ۔خواجہ محمد سلیمان تونسویؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ آپؒ نے دینی تعلیم عام کرنے کیلئے تونسہ میں ایک عظیم الشان مدرسے کی بنیاد رکھی ، درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور خوبصورت خانقاہ شریف تعمیر کرائی ۔اس علاقے میں غربت بہت زیادہ تھی آپ نے تونسہ شریف میں لنگر کا انتظام کیا ، دور دراز سے لوگ تونسہ آنے لگے اور بہت ہی تھوڑے عرصے میں تونسہ شریف علم و حکمت کا مرکز بن گیا ۔علماء ، مشائخ کی آمد سے تونسہ شریف کی شہرت دور دراز تک پہنچ گئی ، اسی جگہ بہت بڑی لائبریری کا انتظام ہوا ، دور دراز سے تشنگان علم اس علاقے میں آنے لگے۔ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی ؒ نے جب تونسہ میں قیام فرمایا تو انہوں نے ہنر مندوں کو پہچان اور احترام دیا ۔ تونسہ شریف میں ہنر مندوں مستری ‘ سونار‘ کمہار ‘ دھوبی ‘ لوہار ‘ حجام ‘ موچی ‘ پولی ‘ چڑوہے ‘ ترکھان خصوصی طور پر بلوائے گئے اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ۔خواجہ سلیمان تونسوی نے ’’الکاسبُ حبیب اللہ ‘‘ کے فرمان کو صحیح معنوں میں سچ کر دکھایا اور اپنی تعلیمات کے ذریعے فرمایا کہ سردار یاخان وہ ہے جو ہنر مند ہے اور محنت کش ہے ۔ جس طرح سرکار دو عالم ؐ نے ذات پات کی نفی کی اورعرب کے بڑے بڑے سردار ابوجہل و ابولہب بن گئے ، اسی طرح حضرت خواجہ سلیمان تونسوی نے بھی سرداری ‘ جاگیرداری اور تمنداری کے فلسفے کی نفی کرتے ہوئے علاقے کے محنت کشوں غریب ہاریوں اور مزدوروں کو اپنے قرب میں جگہ دینے کے ساتھ ساتھ ان طبقات کو احترام دیا جنہیں معاشرے کے جاہل لوگ کمی قرار دیتے تھے ۔ آج ایک بار پھر سے ان ہنر مندوں کو احترام دینے کی ضرورت ہے اور انسانی معاشرے میں وہ تجاوزات جن کو تمنداری ‘ سرداری اور جاگیرداری کا نام دیا جاتا ہے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ جہاں جاگیرداری و تمنداری کے خاتمے کیلئے حکومت کو قدم اٹھانا چاہئے ‘ وہاں درگاہوں کے سجادہ نشینوں کو بھی انسانی خدمت کے حوالے سے باہر آنا چاہئے ۔ وسیب کے طالب علموں کیلئے سی ایس ایس کی اکیڈمیاں بنانی چاہئیں اور اعلیٰ تعلیم کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ پاکستان کے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے سائنس دان بن سکیں اور یورپ کی طرح ایجادات کے علم کو آگے بڑھا سکیں ۔ میرے کالم کا عنوان ’’ حضرت شاہ سلیمان تونسوی اور شادو بلوچ ‘‘ ہے ، اس بارے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت شاہ سلیمان تونسوی کے حالاتِ زندگی پر میاں محمد درزی کی ایک کتاب ہے ’’ گلشن اسرار ‘‘ ، جس کے صفحہ 52 ، 53 پر شادو بلوچ کا ایک واقعہ درج ہے کہ شادو بلوچ آپ کی غلاموں میں سے تھا اور مسخرہ پن کی عادت تھی ۔ ایک دن قدم بوسی کی سعادت حاصل کی تو شاہ سلیمان سئیں نے پوچھا کہ ’’تم کون ہو؟‘‘ اس پر شادو بلوچ نے کہا کہ ’’حضور! اگر دن کی روشنی میں آپ نے مجھے نہیں پہچانا تو پھر قبر کی تاریکی میں کس طرح پہچانیں گے ؟‘‘ ۔ اس پر آپ جلال میں آ گئے اور چہرہ سرخ ہوگیا ۔ اور فارسی کا یہ شعر پڑھا: ’’ چہ غم دیوار مت را کہ باشد چوں تو پشتی بان ،چہ خوف از موج بحر آن را کہ باشد نوح کشتی بان ‘‘ ۔ ترجمہ: ’’ دیوار امت کو کیا غم اور فکر ہے جب آپ سہارا اور محافظ ہیں اسے سمندر کی موجوں سے کیا خوف ہے جب حضرت نوح علیہ السلام چلانے والے ہیں ۔‘‘ یہ ایک واقعہ ہے ، میری صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ صاحب روضہ کی روح کو راضی کریں کہ بزدار صاحب کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان بھی پیروں فقیروں کو ماننے والے ہیں اور یہ بھی عرض کر دوں کہ خواجہ سلیمان تونسویؒ کا ایک لقب پیر پٹھان بھی ہے۔