کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکاں سے کاسئہ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمالِ یار تونے راستے میں دھر لیا بات یہ ہے کہ ہمار انفس ہمیں سمت نمائی نہیں کرنے دیتا لیکن میں یہاں بات کچھ اور کرنا چاہتا ہوں کہ انسان کی کامیابی کا اصل راز کیا ہے۔ وہی جو کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے آپ کوپا لے تو وہ خدا کو پا لیتا ہے لیکن ایک بنیادی بات جسے کامیابی کی کلید کہا جا سکتا ہے وہ ادراک ہے جس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ انسان کو اس نے مشقت کرنے والا پیدا کیا۔ بس یہی مرکزی نکتہ ہے جس نے مجھے حصار میں لے لیا۔ وہی کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ اور ’’کچھ ہاتھ نہیں آتابے آہِ سحرگاہی‘‘ ایسا ہی ہے کہ مدافعت اور مزاحمت ہی سے انسان کے جوہر کھلتے ہیں۔ اس کیلئے مشقت تو اٹھانا پڑتی ہے۔ تخلیق میں بھی یہی راز پنہاں ہے حتیٰ کہ ایک بیج جب کونپل بنتا ہے تو وہ مٹی کے بوجھ کو بھی برداشت کرتا ہے اور اس کو چیرتے ہوئے سر اٹھاتا ہے اور پھر کتنے موسم ہیں جن کا وہ مقابلہ کرتا ہے اور ایک تناور شجر بنتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم مزاجاََ مشقت اور محنت سے جان چھڑاتے ہیں بلکہ مشقت کا کام کرنے والے کو احمق سمجھتے ہیں، محنت مزدوری کرنے والے کو کمتر اور گھٹیا سمجھتے ہیں۔ محنت میں عظمت جیسے ڈائیلاگ ہم صرف تقریروں میں بولتے ہیں جبکہ عملی طور پر ہم یہ کام صرف دوسروں کیلئے پسند کرتے ہیں کہ ’’کمائے گی دنیا کھا ئیں گے ہم‘‘۔ ہم عملی طور پر اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو ہمیں باڈی بلڈر اور پہلوان نظر آتے ہیں جو اپنے مسلز بنانے کیلئے کتنی محنت کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ مزاحمت کیلئے اپنے آپ کو مشققت میں ڈالتے ہیں اور وہ صلاحیت پیدا کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وزن اٹھا سکیں۔ یا آپ دیکھتے ہیں کہ کچھ پیراک دریا کے بہاؤ کے مخالف تیرتے ہیں تو ان کے جوہر کھلتے ہیں۔ ’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘‘۔ اللہ فرماتا ہے کہ انسان کو اپنی حیثیت کا علم ہونا چاہئے۔ ’’کیا وہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا‘‘ ’’وہ کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال برباد کر دیا‘‘ ’’کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا‘‘ میں نے یہ فرمان سورۃ بلد سے لیا ہے۔ یہ سب کچھ جس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ہم اپنے اردگرد عملی طور پر دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے عیش و عشرت اور خوشحالی میں سب کچھ بھول جاتا ہے اور اسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ خدائی دعوے کرنے لگتا ہے حالانکہ درحقیقت اس کی اوقات اور بساط ہی کیا ہے۔ ایسے ہی اپنا پنجابی شعر یاد آ گیا: ہن کیہہ خوف بلاواں دا سارا شہر خداواں دا پہلی بات یہ سمجھنے والی ہے کہ انسان اس زعم میں ہوتا ہے کہ اس کا مال و منال سب اپنا ہے حالانکہ یہ اللہ کی طرف سے امانت ہے۔ انسان کہتا ہے کہ اس نے کتنا مال برباد کر دیا۔ یعنی اسراف اور فضول خرچی کی۔ اس کی مرضی وہ جیسے چاہے کرے۔ وہ اپنے اس رویے پر اتراتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران اپنا تو کیا ملک کی دولت بھی ایسے ہی لٹاتے ہیں کہ ان کی اپنی ہو اور انہیں اختیار ہے کہ جس کو چاہیں بخش دیں، وسائل کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنی طاقت اور اختیار کا اعلان کریں۔ یہی وہ رویہ ہے جو چند خواتین میں بھی پیدا ہو گیا ہے کہ کہنے لگیں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ ذہن میں رکھیں کہ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتیں اور اس کا پورا جسم ایک امانت ہی تو ہے۔ اپنی مرضی تو بغاوت ہے۔ یہاں تو خودسپردگی اور مکمل سرنڈر ہے۔ ہم تو سخن کے باب میں بھی یہی سمجھتے ہیں: کب سخن ہم نے کیاسعدکسی لمحے بھی دل پکڑتا ہے کہیں سے یہ اشارے کیسے پیش نظر مگر یہی رہے کہ اللہ نے آنکھیںدیں زبان دی اور دو ہونٹ اور پھر ہویدا دو اونچائیاں یعنی اچھائی اور برائی کو الگ الگ کر دکھایا۔ ایک اور جگہ فجور اور تقویٰ دونوں اس کو الہام ہوئے۔ ہم اس کی نعمتوں اور رحمتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ وہ رحیم اور رحمٰن کہلاتا ہے تویہ اس کی عظمت اور قدرت کا تعارف۔ آپ ایک اور رخ سے دیکھیں کہ انسان کی عبادات سب لینے کی بات ہے کہ آپ مانگتے ہیں اور اللہ عطا کرتا ہے مگر جہاں انسان کا تعلق عباد کے ساتھ وہاں یہ یکسر مختلف ہے وہاں دینے کی تلقین ہے کہ آپ اتفاق کریں۔ دوسروں کو ان کے حقوق دیں۔ بندوں کے ساتھ یہی دینے کا جذبہ محبت پیدا کرتا ہے۔ مگر آپ ذرا اپنے رویے دیکھیں کہ ہم خلقت کے ساتھ لینے کا دماغ رکھتے ہیں کہ کس سے کیا مفاد مل سکتا ہے یا پھر اگرمیں احسان کروں تو اس کا بدلہ کیا ہو گا اور دوسری طرف نماز پڑھ کر ہم پتہ نہیں کیا احسان کرتے ہیں حالانکہ یہ تو مانگنے والی بات ہے۔ سورۃ بلد میں جو اللہ نے فرمایاکہ انسان کو مشقت کرنے والا بنایا تو پھر بعد میں بتا بھی دیا کہ اسے بلندی سر کرنی ہے۔ وہ یہ کہ اسے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے، جو مشکل میں انہیں مشکل سے نکالنا ہے۔ یتیموں کی سرپرستی کرنی ہے اور مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ پہاڑی ڈھانے والی بات ہے، یہ نفس سے لڑنے والی بات ہے۔ یہ سب اللہ کی رضا کیلئے ہے۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ غریبوں کا خیال رکھنے کی بجائے انہیں بے حال کر دیا جاتا ہے۔ مہنگائی اس کی مت مار دیتی ہے۔ یوٹیلیٹی بلز غریب کا کچومر نکال دیتے ہیں۔ وہی جو جالب نے کہا تھا: ہر بلاول ہے ملک کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے اس میں کتنی تلخ حقیقت اور زہر آلود طنز کا نشتر ہے۔ استعارہ اور اشارہ کہاں سے اٹھایا ہے کہ جنہوں نے انہیں مقروض کیا ہے اور ان کے جوتے بھی اتروا لیے ہیں۔ کالم کا دامن سمٹ رہا ہے مگر اہم اور بنیادی بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حکومت اقتدار اور طاقت سب کچھ اللہ کی امانت ہے اس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔ لکھ پتی سے ککھ پتی بننے میں دیر نہیں لگتی۔ راتوں رات بھی باغ اجڑ جاتا ہے۔ یہ تکبر اور نخوت تو علم میں بھی نہیں چلتی۔ میاں محمدیاد آئے: پڑھنے دا نہ مان کریں توں نہ آکھیں میں پڑھیا او جبار قہار کہاوے میاں روڑھ دوے ددھ کڑھیا ہم تو دوسروں کی رکھی امانتوں پر بھی اپنا استحقاق ثابت کر دیتے ہیں۔ سمجھتے ہم سب کچھ ہیں اور نفس کے کہنے پر خود فریبی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سب کچھ اسی کا ہے۔ مرزانوشہ نے کیا خوب کہا ہے: جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا