علامہ عنایت اللہ خان المشرقی نے کراچی کے جلسہ عام میں پیش گوئی کی تھی۔’’اے مسلمانو!برطانیہ جنگ عظیم میں اس قدر مقروض ہو گیا ہے کہ ہندوستان کا شما ل مغربی حصہ امریکہ کو رہن رکھ کر جا رہا ہے‘‘۔ علامہ مشرقی نے پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں جن خدشات کی پیش بینی کی تھی قیام پاکستان کے 76سال بعد ان حالات کی ہی تصویر عالمی بنک نے پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ 2023ء کی رپورٹ میں کھینچی ہے ۔عالمی بنک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بلند افراط زر کے دبائو سے غربت میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 24کروڑ میں سے ساڑھے 9کروڑ یعنی 39فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم کے اقتدار کے 16ماہ میں 2کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے گرے اور بے روزگاری میں 10فیصد سالانہ اضافے کے باعث ہر سال 30لاکھ افراد غریب طبقہ میں شامل ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق متوسط طبقہ بھی اپنی آمدن 70سے 80فیصد حصہ صرف خوراک پر خرچ کر رہا ہے۔ یہ متوسط طبقہ بھی کچھ ہی عرصہ میں گھٹ کر42 فیصد سے 33 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ متوسط طبقہ ہی ہے جس سے اشرافیہ وطن کی خاطر قربانی کا تقاضا ہمیشہ کرتی آئی اور اسی کا ٹیکسوں کی صورت میں ہمیشہ خون نچوڑا جاتا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان میں متوسط طبقہ نہیں پاکستان کے لئے قربانی دینے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ حکمران اور ان کی پروردہ اشرافیہ تو صرف 10فیصد ٹیکس دیتی ہے ۔معیشت کے لئے خون تازہ تو اسی متوسط طبقہ کی رگوں سے نچوڑا جاتا ہے۔ 39فیصد غریب تو فاقوں سے خودکشی کرنے پرمجبور ہیں۔ غربت کیا ہوتی ہے!! اس بارے میں گزشتہ دنوں غیر ملکی میڈیا پر ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق بلوچستان میں غریب لوگ اپنی بیٹیوں کوفروخت کررہے ہیں۔ ایسے دس بیس نہیں ہزاروں ہیں۔ جن کی غیرت ایسا کرنے پر آمادہ نہیں ہو پاتی ان کی حالت کا اندازہ قومی اخبارات میں چھپنے والی ان خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ صرف بلوچستان ہی نہیں پورے ملک میں غریب اپنے بچوں کو بیچ رہا ہے۔ کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹائون میں ایک خاتون نے حالات سے تنگ آکر اپنی 4بچیوں سمیت زہر پھانک لیا ۔۔ ظاہر ہے کوئی بھی ماں یہ نہیں دیکھ سکتی اس کی بیٹیاں بھوک مٹانے کے لئے امیر زادوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں گزشتہ روز ایک باپ نے اپنے چار بچوں کو قتل کرکے نہر میں پھینک دیا کچھ دن پہلے ایک ماں نے اپنے بچوں سمیت شیخوپورہ کی نہر میں کود گئی۔ صرف ایک سال کے عرصہ میں ملک میں خودکشیوں میں 25فیصداضافہ چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے: میں زہر حقیقت کی تلخی خوابوں میں چھپائوں کب تک غربت کے دہکتے شعلوں سے دامن بچائوں کب تک اس صورت حال میں کوئی انکار کر سکتا کہ علامہ مشرقی کی پیش گوئی غلط ہے۔علامہ المشرقی نے تو قیام پاکستان معاشی بدحالی کی صرف پیش گوئی کی تھی۔ مگر وجہ ابوالکلام آزاد نے یہ بتائی ’’پاکستان کے نام سے جو ریاست وجود میں آئی ہے اس میں برسر اقتدار طبقہ وہ ہے جو برطانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے! اس کے طرز عمل میں خدمت خلق اور قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ۔پاکستان کی ریاست کے حاکموں اور عوام کے درمیان ایک خلیج حائل ہے۔‘‘ ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ قائد اعظم نے خطہ کے مسلمانوں کو آزد ملک تو دلوا دیا مگر ان کے دلوں میں پاکستانیت پیدا کرنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۔آج ہم جس حال میں ہیں اس کی وجہ پاکستانیوں میں پاکستانیت کا فقدان ہے ۔ ان نواز شریف پاکستان آ رہے ہیں ، ’’امید سے یقین کی سرزمین ‘‘کا نعرہ لگا کر جو کام وہ اپنے 30سال کے اقتدار میں نہ کرسکے اقتدار میں آنے کے بعد کرنے کا دعویٰ کر کے پاکستانیوں سے تاریخی استقبال کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 25لاکھ کاہینڈ بیگ اور 20 ہیروں والی انگوٹھی پہن کر ’’قوم کی بیٹی‘‘ فاقوں مرنے والوں کو استقبال کے لئے گھروں سے نکلنے کے لئے پکار رہی ہے اور فاقہ مست اسی بیمار کے لڑکے سے دوالینے کے لئے بے تاب ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی ان حالات تک کیوں اور کیسے پہنچے پاکستانیوں کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے یہ جاننا یقینا اہم ہے۔ مگر اس سے بھی اہم یہ جاننا ہے کہ کیا پاکستانیوں کے حالات بدل بھی سکتے ہیں ۔ یقینا بدل سکتے ہیں مگر اس کے لئے ہمیںبے حسی اور مفاد پرستی کی دلدل سے نکلنا ہو گا۔ اب76سال بعد پاکستان کے سپہ سالار نے یہ کہہ کر قوم کو امید دلائی ہے کہ اب کرپشن کرنے والوں کے خلاف احتساب صرف کاغذوں میں نہیں ہو گااور سیاستدانوں کا ہی نہیں ہو گا بلکہ ان کے اپنے ادارے کے کرپٹ افراد کا کورٹ مارشل ہو گا۔ آرمی چیف کا یہ بیان ہی امید کی واحد کرن ہے ۔ آرمی چیف پاکستان کی تاریخ اور پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کو احتساب سونپیں،جن کا مرنا جینا پاکستان کے لئے ہے، جن کے محلات یورپ اور امریکہ میں نہیں۔ ایسوں کو تلاشیں، ان کو احتساب کا عمل سونپیں۔ ایسا کرنے پر ہی آرمی چیف کی صورت میں پاکستانیوں کو اقبال کا مہدی برحق مل سکتا ہے ۔ وہ اقبال نے کہا تھا نا: دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلہء عالم افکار