’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ڈیرے ( ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان) میں21فروری کو شروع ہونے والی گیارہویں ’’ نظریہ پاکستان کانفرنس‘‘ آج اختتام پذیر ہو جائے گی‘‘۔ سابق صدرِ پاکستان چودھری محمد رفیق تارڑ کی چیئرمین شِپ میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ فیڈرل شریعت کورٹ ‘‘ کے سابق چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد کی چیئرمین شِپ میں ’’ کارکنانِ تحریک پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے علاّمہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور ’’مادرِ ملّت ‘‘محترمہ فاطمہ جناحؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں جنابِ مجید نظامی کا مشن آج بھی جاری ہے۔ معزز قارئین!۔ جب بھی جنابِ مجید نظامی کا تذکرہ ہوتا ہے تو میرے دل و دماغ میں اُن کی یادوں کے چراغ جل اُٹھتے ہیں ۔ جناب مجید نظامی سے میرا تعلق جنوری 1964ء میں ہُوا جب اُنہوں نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ مَیں نے اُن کی انتخابی مہم کے دَوران نہ صِرف سرگودھا بلکہ پنجاب کے کئی شہروں میں اُنہیں آمریت کو للکارتے ہُوئے دیکھا۔ مَیں نومبر 1969ء میں لاہور شفٹ ہوگیا ۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ ’’ پنجاب ‘‘ اور 11 جولائی 1973ء کو روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا، پھر جنابِ مجید نظامی سے میرے تعلقات کا نیا دَور شروع ہُوا اور لاہور اور اسلام آباد میں مالکان اخبارات کی تنظیم "A.P.N.S" کے اجلاسوں اور مختلف صدور و وزرائے اعظم کی بریفنگز میں میری اُن سے ’’ملاقاتوں اور باتوں ‘‘ سے مجھے "Inspiration" ملتی رہی۔ مئی1991ء سے ڈیڑھ سال تک ’’نوائے وقت ‘‘ میں میرا کالم ’’ سیاست نامہ‘‘ شائع ہوتا رہا ۔ جنوری 1999ء سے ڈیڑھ سال تک پھر ’’نوائے وقت‘‘ میں میری کالم نویسی کا دوسرا دَور رہا ۔ 2008ء کو ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے منتخب ہونے والے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید سے میرا تعارف اگست 1977ء میں ہو چکا تھا جب، وہ طالبعلم راہنما کی حیثیت سے اپنی سرگرمیوں کی خبریں شائع کرانے کے لئے روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے دفتر میں مجھے ملنے آتے تھے ۔ 8 اگست 2012ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میری کالم نویسی کا تیسرا دَور شروع ہُوا ۔ محترم مجید نظامی 26 جولائی 2014ء کو خالق حقیقی سے جا ملے تھے لیکن، میرا کالم 28 فروری 2017ء تک ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوتا رہا ۔ جب مَیں ’’ نوائے وقت‘‘ میں کالم نہیں بھی لکھتا تھا پھر بھی جنابِ مجید نظامی سے میرا بلاواسطہ اور برادرِ عزیز شاہد رشید کے ذریعے بالواسطہ تعلق رہا۔ اِس دَوران مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور اُن کی قومی خدمات پر اردو اور پنجابی میں کئی نظمیں لکھیںجو، مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان‘‘ کی تقاریب میں پڑھ کر سُنائیں۔ جنابِ مجید نظامی 3 اپریل 1928ء کو سانگلہ ہل میں پیدا ہُوئے۔ ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے چیف کوآرڈینیٹر میاں فاروق الطاف اور سیکرٹری سیّد شاہد رشید ،کچھ دوسرے احباب اور عقیدت مندوں کے اصرار پر جنابِ مجید نظامی نے 3 اپریل 2014ء کو اپنی 86 ویں سالگرہ دھوم دھڑکے سے منائی۔ یعنی "Arranged Birthday" ۔اُس روز میری نظم کا عنوان تھا ۔’’چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب‘‘ نظم کے دو بند پیشِ خدمت ہیں… سجائے بَیٹھے ہیں محفل ، خلُوص کی احباب! کِھلے ہیں رنگ برنگے ،محبّتوں کے گُلاب! بنایا قادرِ مُطلق نے ،جِس کو عالی جناب! چمک رہا ہے ،صحافت کا مہِر عالم تاب! …O… خُوشا! مجِید نظامی کی ،برکتیں ہر سُو! ہے فکرِ قائدؒ و اقبالؒ ،کی نگر نگر خُوشبُو! اثرؔ دُعا ہے کہ ہو، ارضِ پاک بھی شاداب! چمک رہا ہے ،صحافت کا مہِر عالم تاب! 18 دسمبر 2013ء کا دِن میری زندگی کا یادگار دِن تھا / ہے جب، تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن اور ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک ِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین کرنل ( ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کی چیئرمین شِپ میں تحریک پاکستان کے 147ء نامور حیات کارکنوں ( یا مرحومین کے ورثاء )کے گلوں میں "Gold Medals" ڈالے گئے۔ جنابِ مجید نظامی اور فرزند ِ اقبالؒ ۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی خود اپنا اپنا میڈل وصول کِیا۔( دراصل جنابِ مجید نظامی اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کئی سالوں سے "Gold Medal" وصول کرنے کے لئے ’’ پھڑائی‘‘ نہیں کھا رہے تھے ، ٹال رہے تھے ؟۔ بہرلحال مَیں نے بھی اپنے والد ِ (مرحوم) رانا فضل محمد چوہان کا ’’ گولڈ میڈل‘‘ وصول کِیا اور میرے تین صحافی دوستوں روزنامہ ’’ جرأت ‘‘ کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی نے اپنے مرحوم چچا جناب ظہور اُلدّین سرہندیؔ کا روزنامہ ’’ نئی بات‘‘ کے گروپ ایڈیٹر جناب عطاء اُلرحمن نے اپنے والد ِ مرحوم عطاء اُلرحمن کا اور ’’ صاحب ِ نقطہ نظر‘‘ جناب مجید اُلرحمن شامی نے اپنے مرحوم ماموں قاضی نیاز محمد کا ’’ گولڈ میڈل‘‘ ۔ گذشتہ 29 سال میں ’’تحریکِ پاکستان ورکز ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے تقریباً 1300 کارکنان ( خواتین و حضرات کو) "Gold Medals" دئیے جا چکے ہیں ۔ معزز قارئین!۔20 فروری سے 22 فروری 2014ء تک جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں چھٹی ’’نظریۂ پاکستان کانفرنس ‘‘ کا انعقاد ہُوا۔ اِس سے قبل برادرِ عزیز شاہد رشید کی فرمائش پر مَیں نے اُس کانفرنس کے لئے ’’ ملّی ترانہ‘‘ لکھا جسے، نظریاتی سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے "Compose"کِیا اور جب"The Causeway School"۔ کے طلبہ و طالبات نے بہت ہی سُریلی آوازوں میں میرا ترانہ گایا تو، وائیں ہال ؔ تالیوں سے گونج اُٹھا اور پھر سٹیج سیکرٹری سیّد شاہد رشید نے اعلان کِیا کہ ’’ خواتین و حضرات !۔ ’’ مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے ، اثر چوہان صاحب کو ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا ہے ‘‘۔ ہال پھر تالیوں سے گونج اُٹھا۔ 1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی نے ترانہ کے "Composer" اور طلبہ و طالبات کو 15 ہزار روپے انعام دِیا۔ مَیں نے پانچ ہزار اور میاں فاروق الطاف نے بھی پانچ ہزار ۔ یہ جنابِ مجید نظامی کا مجھ پر احسان ہے جو، مَیں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ اِس وقت مَیں اُن کی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہُوئے اپنے لکھے ہُوئے ملّی ترانے کے صِرف تین شعر پیش کر رہا ہُوں…… پیارا پاکستان ہمارا ، پیارے پاکستان کی خیر! پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر! …O… خواب شاعر مشرق ؒ کو ، شرمندۂ تعبیر کیا! روز قیامت تک ، کردار قائد ؒ والا شان کی خیر! …O… خطۂ پنجاب سلامت ، خیبر پختونخوا ، آباد! قائم رہے ہمیشہ ، میرا سندھ ، بلوچستان کی خیر! معزز قارئین!۔ 26 جولائی 2014ء کو ( 26 اور 27 ویںرمضان شریف کی درمیانی رات ) ’’ صحافت کا مہر عالم تاب‘‘ غروب ہوگیا لیکن، علاّمہ اقبالؒ نے تو، جنابِ مجید نظامی جیسے اکابر ین ملّت کے بارے میں بہت ہی کہہ دِیا تھا کہ … مرنے والے مرتے ہیں لیکن، فنا ہوتے نہیں! یہ حقیقت میں کبھی ،ہم سے جُدا ہوتے نہیں ! میری ایک نظم کا مصرعہ ہے کہ … جب تک، پاکستا ن ہے زندہ، زندہ رہے گی مجید نظامی! 25فروری 1962ء کو تحریک ِ پاکستان کے نامور کارکن اور ’’ نوائے وقت‘‘ کے بانی ’’ قلم بردار‘‘ جناب حمید نظامی کا انتقال ہُوا تو، جنابِ مجید نظامی نے اپنے بڑے بھائی کے جانشین کی حیثیت سے اُن کے قلم کو عَلم بنا ؔدِیا ۔ مَیں نے مسلکِ صحافت 1960ء میں اختیار کِیا تھا ۔ یہ مئی 1961ء کا کوئی دِن تھا جب، سرگودھا میں تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ کارکن) قاضی مرید احمد پہلی اور آخری بار مجھے جنابِ حمید نظامی سے ملوانے کے لئے ’’ نوائے وقت‘‘ کے دفتر میں لے گئے تھے۔ یہ میری جنابِ حمید نظامی سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ گفتگو جنابِ حمید نظامی اور قاضی صاحب میں ہوتی رہی اور مَیں صِرف سُنتا رہا۔ بہت جلد جناب حمید نظامی کی قومی خدمات بھی بیان کروں گا۔ انشاء اللہ۔