1984ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کا جس طرح سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوا،وہ بھارتی سیاسی تاریخ کا بھیانک ترین سانحہ کہلایا جائے گا۔کہ اس کے بعد ہزاروں سکھوں کے گھروں کو محض لوٹا ہی نہیں گیا بلکہ سینکڑوں کو زندہ جلا دیا گیا۔وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے ۔1991ء میں ان کا قتل بھی انتہاپسند وں کے ہاتھوں،نہرو فیملی کے لئے ایک بڑاالمیہ ہی تھا۔راجیو کے بیٹے راہول گاندھی اور اب ان کی بیٹی پریانکا اپنے وارثوں کی سیاست اور جماعت کی بقاء کے لئے 2019ء کے الیکشن میں بھر پورتیاریوں کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔نہروخاندان کا کی چوتھی پیڑھی آج بھی کروڑوں بھارتیوں کے دلوں پر راج کررہی ہے۔اس وقت بھارت میں جس طرح مودی مخالف لہر چل رہی ہے۔ اس میں راہول گاندھی ممکنہ وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔دو ایسی خواتین کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جواپنی طویل سیاسی جد و جہد کے سبب وزارت عظمیٰ کے عہدے پر طویل عرصے تک راج کرتی رہیں۔ایک برطانوی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر اور دوسرے اسرئیلی وزیر گولڈا میئر۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وراثتی سیاست کا سارا زور ایشیائی ممالک میں رہا ہے۔جہاں سیاسی و معاشی پسماندگی صدیوں سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔عوام کی اکثریت نظر یہ سے زیادہ دیومالائی شخصیات میں اپنا مستقبل دیکھتی ہے۔امریکہ جیسے ملک میں کم از کم دو مثالیں تو دی جاسکتی ہیں ،جس میں شوہر یعنی کلنٹن کے بعد ان کی بیگم ہلیری نے ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاست سنبھالی اور دوسرے ریپبلکن پارٹی کے بش سینئرکے بعد بش جونیئر۔۔۔ ایشیا ء ۔۔۔بالخصوص ساؤتھ ایشیاء میں حکمراں بیواؤں اور بیٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے جب میں ہندوستان کے نہرو خاندان کی چوتھی پیڑھی کی طرف آرہا تھا تو خیال آیا کہ آخر برصغیر پاک و ہند میں وراثت کی سیاست میں مردوں کے مقابلے میں خواتین ہی کیوں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ ہمارے برصغیر میں یوں بھی روایت ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں اپنے والد سے زیادہinspirationلیتی ہیں۔بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بعد بلاشبہ اندرا گاندھی جب وزیر اعظم بنیں تو انہیں عالمی لیڈروں کی صف ِ اول میں مقام حاصل تھا۔جو اُن کے صاحبزادگان سنجے اور راجیو گاندھی حاصل نہ کرسکے۔یوں بھی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بعد ان کے دونوں بیٹے جو اُن کے مستقبل میں نہرو خاندان کی سیاست کے وارث بنتے،انتہائی نوجوانی میں حادثاتی موت کا شکا ر ہوئے۔راجیو گاندھی کے قتل کے بعد اُن کی اٹالین بیوی سونیا گاندھی نے غیر ملکی ہوتے ہوئے ہندوستانی سیاست میں اپنامقام بنایا۔اور پھر جب ایک بار پھر 2004ء میں کانگریس کو سونیا گاندھی کی قیادت میں شاندار کامیابی ملی تو انہوں نے اپنی جگہ وزارت عظمیٰ کا تاج من موہن سنگھ کے سر پہ سجایا ۔جس سے یقینا ان کی عزت و عظمت میں اضافہ ہوا۔ تاہم اُن کے صاحبزادے راہول گاندھی نے جب کانگریس کی قیادت سنبھالی تو اپنے پہلے ہی الیکشن میں انہیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بھارتی سیاسی پنڈتوں کا اس وقت بھی کہنا تھا کہ اگر راہول گاندھی کی جگہ ان کی بہن پریانکا گاندھی کو سیاسی میدان میں اتارا جاتا تو وہ نریندر مودی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط امیدوار ہوتیں۔اب جبکہ بھارت میں نومبر 2019ء میں 21ویں وزیر اعظم کے لئے الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو کانگریس کے پختہ کار سیاسی کھڑپینچوں نے نہرو خاندان کی چوتھی پیڑھی کی نوجوان پریانکا کو امیداور یقین سے انتخابی میدان میں اتارا ہے کہ اپنی دادی اندرا گاندھی کی طرح ساڑھی سنبھالتی،ہاتھ ہلاتی پریانکا ہی ’’مودی‘‘ کی سیاست کے تابوت میں کیل ٹھونکنے میں کامیاب ہوں گی۔اور اس کا سبب وہی ہے جس کا میں ابتدا ء میں ذکر کرچکا ہوں کہ برصغیر پاک و ہندمیں مرد و وارثوں کے مقابلوں میں خواتین وارثوں کی قبولیت عوا م میں زیادہ ہوتی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں نہرو خاندان کی طرح بھٹو خاندان سے عوام کی والہانہ محبت کو بھی مثالی اور تاریخی کہا جاسکتا ہے۔اور اس میں وہی دلچسپ فیکٹر غالب ہے۔یعنی بیٹے کے مقابلے میں بیٹی۔بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد ایرانی نژاد بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھالی کہ اس وقت بے نظیر محض 23سال کی تھیں۔پھر یہ بھی ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ نصرت بھٹو ،بھٹو خاندان کی مستقبل کی سیاست کا تاج بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹوکے سر پہ سجانا چاہتی تھیں۔آگے بڑھنے سے پہلے یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ نہرو خاندان کی طرح بھٹو خاندان کے افراد اپنے مخالفین کے مقابلے میں زیادہ بڑے المیے سے گزرے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی طویل جد وجہد اور پھر شہادت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔یہ بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی والدہ یعنی بانی ِ پیپلزپارٹی کی بیوہ اور اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے مقابل کھڑے ہونے پر مجبور ہوگئیں یا کردی گئیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کی اکثریت نے بھی بھٹو صاحب کی سیاست کے وارث کے طور پر اُن کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو اور بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کے مقابلے میں ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو ترجیح دی اور بلاشبہ وہ اس کی حقدار بھی تھیں۔اپنی اعلیٰ تعلیم ،سیاسی ذہانت اور عوام کی نباض کے طور پر بلاشبہ انہوں نے اپنے والد کی اس پہلی بات کو ثابت کیا کہ برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ میں وہ اندرا گاندھی کے مقابلے میں زیادہ بلند مقام رکھتی ہیں۔نہروخاندان کی طرح بھٹو خاندان کی چوتھی پیڑھی کے آنے تک یہ سوال اٹھانا قطعی مناسب نہیں لگتا کہ بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں اُن کی بہنوں،خاص طور پر آصفہ بھٹو سے اُن کا مقابلہ کیا جائے ۔ ایک مختصر مدت میں بلاول نہ صرف پارٹی بلکہ عوام کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ بھارت،پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کی سیاسی و وراثتی سیاست میں بڑی مسابقت ہے۔کہ بنگلہ بندھوشیخ مجیب الرحمان کے 1975ء میں بہیمانہ قتل کے بعد حسینہ واجد کا سیاست میں آنا ،عوامی لیگ کا سربراہ بننااور پھر تیسر ی بار وزیر اعظم منتخب ہونا بھی وراثتی سیاست کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔1975ء میں بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان اپنے سارے خاندان کے ساتھ جن میں ان کے صاحبزادگان بھی شامل تھے،مٹھی بھر فوجیوں کے ہاتھوں بھیانک انجام سے دوچار ہوئے تو ان کی بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ جرمنی میں تھیں۔بنگلہ دیش جیسی ہنگامہ خیز خونی سیاست میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک غیر سیاسی اور درمیانہ درجے کی تعلیم یافتہ حسینہ واجد ۔ایک نہیں ،دو نہیں، تیسری بار بھی وزارت عظمی ٰ کے عہدہ ٔ جلیلہ پر بیٹھیں گی۔بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک منفرد اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ایک بیٹی کے مقابلے پر ایک بیوہ دو دہائی سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ جی ہاں، محترمہ خالدہ ضیاء اپنے شوہر جنرل ضیاء الرحمان کے 1981ء میں قتل کے وقت ایک مکمل گھریلو غیر سیاسی خاتون، عوامی لیگ کے مخالفین جب اپنا سارا زور آزمانے کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکے تو پھر خالدہ ضیاء کی صورت میں ہی انہیں ایک نجات دہندہ سمجھا گیا اور بہر حال وہ اس میں کامیاب بھی ہوئیں۔حسینہ واجد کو انتخابی میدان میں شکست دینے کے بعد وہ ایک مدت کے لئے وزیر اعظم بھی بنیں ۔اور آج معروف اصطلاح میں political animalبن کر عوامی لیگی حکومت کے لئے مستقل ایک خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ مگر حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کے بعد ان کے وارثوں میں اب تک کوئی نمایاں ہو کر سامنے نہیں آیا ہے۔(جاری ہے)