تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار ڈاکٹر عارف علوی صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں۔ اسپیکر، وزیراعظم اور پھرصدر کے انتخاب میں اپوزیشن جماعتوں میں جو انتشار رہا اْس نے تحریک انصاف کی ان تینوں اہم عہدوں پر کامیابی کوآسان بنادیا۔ تاہم اگر اپوزیشن تقسیم نہ بھی ہوتی تو اْسے متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کے سبب سادہ اکثریت سے بھی کامیابی مل جاتی۔ تحریک انصاف کی قیادت اور خود وزیراعظم عمران خان گاہے بگاہے بیانوں میں یہ کہتے ہوئے پھولے نہیں سماتے کہ اپوزیشن بھاری عددی اکثریت کے باوجود اتنی کمزور ہے کہ اْن کی حکومت کیلئے سِرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ رہا چیختا چنگھاڑتا میڈیا تو اْس سے محترم وزیر اعظم عمران خان نے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں کم از کم تین ماہ دے دے۔ بدقسمت پاکستانی قوم تین ماہ یعنی 90 دن کیا۔۔۔۔ ہماری فوجی اور سویلین حکومتوں کو ایک بار نہیں، دو دو بار مہینوں، برسوں کیا۔۔۔ دہائیاں دے چکی ہے۔ یہاں میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کا ذکر نہیں کرونگا۔۔۔ کہ منتخب جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں ان فوجی حکمرانوں نے زیادہ ٹھاٹ باٹ سے حکومتیں کیں۔۔۔ یہی کوئی 32 سال سے اوپر۔۔۔ اور اْس کا سبب ہماری یہی سیاسی جماعتیں تھیں کہ ابھی اپنے اقتدار کے 90 دن بھی پورے نہیں کر پائیں کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اْسی ’’لوٹ مار‘‘ ، اقربا پروری کے راستے پر چل پڑتی ہیں اور پھر جس سے تنگ آ کر خلق ِ خدا پھر ’’پنڈی‘‘ کی طرف سے آنے والی چاپیں سننے کی منتظر ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی چاردہائی کی ساری زندگی جدوجہداور کامیابیوں سے عبارت ہے۔ کرکٹ اورخدمت خلق میں جوانہوں نے مثالی کارنامے انجام دئیے ہیں اْس سے بلاشبہ پاکستان کے غریب ، معصوم عوام کی اکثریت اب یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ 22 سال کی کٹھن جدوجہد کے بعد جو خان صاحب تختِ لاہور کیساتھ اسلام آباد پر بیٹھے ہیں تو واقعی وہ اپنے وعدے اور دعوے کے مطابق مملکتِ پاکستان کو ’’مدینہ ریاست‘‘میں تبدیل کردیں گے۔ عمران خان کا خواب مدینہ ریاست پر کبھی آئندہ تفصیل سے گفتگو ہوگی کہ اس وقت تومدینہ اْن بادشاہوں کے ہاتھوں میں ہے جن شاہزادگان کی ساری دنیا میں شہرت اْن کی مبینہ شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کے سبب ہے۔۔۔ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کویونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کا اعلان خوش آئند ہی سمجھا جائے گاکہ اس غریب ملک کے ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہائوس کا سالانہ خرچ 80 سے 90 کروڑ روپے ہے۔ لگژری گاڑیوں کی نیلامی بھی سبحان اللہ۔۔۔ صرف چائے، پانی سے تواضع پر بھی واہ واہ کہنے میں حرج نہیں۔۔۔۔ مگر محترم وزیر اعظم مسائل اس سے بھی زیادہ گھمبیر اور سنگین ہیں۔۔۔ اس مملکتِ خداداد پاکستان میں 2 کروڑ 40لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔۔۔ 22 لاکھ بچے پیدائش سے پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملتے ہیں۔۔۔ 2 کروڑ عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔۔۔ جبکہ 71 سال سے برسرِاقتدار حکمراں طبقات نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا ہے جس کے سبب پاکستانی قوم 36 کھرب روپے کی مقروض ہے۔ مزید اعداد و شمار سے کالم کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا کہ اسدعمر سے زیادہ کون جانتا ہے۔۔۔ مگر تحریک انصاف کی قیادت اور خود وزیر اعظم عمران خان سے معذرت کے ساتھ کہ گذرے ہوئے 20 دنوں میں لگتا یہی ہے کہ اگر انہوں نے وزارت داخلہ، دفاع، وزارتِ اطلاعات ونشریات، وزارت خزانہ جیسی اہم وزارتوں پر کوئی ’’ٹیم‘‘ بنائی بھی تھی تو اْس کی کارکردگی کوارٹر فائنل میں پہنچنے سے بھی کم اہلیت اور صلاحیت کی حامل نظر آتی ہے۔ کہ اگر 20 دن اسی رفتار سے وزارتیں چلتی رہیں تو 100 دن بعد کہیں اْلٹی گنتی شروع نہ ہوجائے۔۔۔ 25 جولائی سے صرف چار دن پہلے کراچی ایئر پورٹ سے جب میں اْن کے ہمراہ انتخابی مہم کیلئے شہر کی نواحی بستیوں کی طرف رواں دواں تھا تو خان صاحب نے بڑے پْر جوش انداز میں میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا میں نے پارٹی کی بڑی مضبوط تنظیم سازی کی ہے۔۔۔۔ ہم جیت گئے تو حکومت پر ہماری گرفت مضبوط ہوگی۔ خان صاحب جس یقین اور خلوص سے یہ دعویٰ کررہے تھے اْس پر یقین کرنا ہی تھا۔۔۔ مگر۔۔۔ جس تیزی سے مرحلہ وار حکومت سازی کا عمل جاری ہے کچھ اْس سے زیادہ رفتار سے تحریک انصاف بحیثیت جماعت معدوم ہوتی جارہی ہے۔۔۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ، خود وزیر اعظم بن چکے ہیں۔۔۔ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی صدارتی کرسی پر جابیٹھے ہیں۔۔۔ سیکرٹری انفارمیشن اور پارٹی ترجمان فواد چوہدری وزیر اطلاعات کی حیثیت سے دن رات اسکرینوں کے اندر ہوتے ہیں۔۔۔ ناک کا بال نعیم الحق نے بھی مشیر سیاسی امور کا عہدہ جلیلہ حاصل کرلیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی ایک شوکت یوسف زئی کو چھوڑ کر ساری پی ٹی آئی حکومت میں جاچکی ہے۔۔۔ سندھ اور بلوچستان میں خیر سرے سے تنظیم بس نام کی حد تک تھی۔۔۔۔.رہا پنجاب تو ایک انتخاب ہارنے والے اعجاز چوہدری ضرور لاہور میں پارٹی کی دکان کھولے ہوئے ہیں۔ باقی سب پنجاب حکومت کی وزارتوں ، مشاورتوں کے ثمرات سے آگاہی کیلئے دن رات وزیر اعلیٰ ہائوس کے چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ لیجئے میں Power Broker جہانگیر ترین کو تو بھول ہی گیا جن کے بغیر وزارت عظمیٰ اور پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنا کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو خیال آیا کہ کہیں پی ٹی آئی مخالف بریگیڈ کے کھاتے میں نہ ڈال دیا جائوں۔ مگر محبت اور نیک نیتی سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’’فغانِ درویش کون سنے گا‘‘۔۔۔۔ درخواست پی ٹی آئی کے بڑوں سے یہی ہے کہ حکومتیں آنی جانی ہوتی ہیں۔۔۔ پارٹی حکومت سے بڑی ہوتی ہے۔ پارٹی ’’اووَر‘‘ ہوجائے تو حکومت پچھلے باجو والی گلی سے نکل جاتی ہے۔ حوالے کے لئے پی پی، ن لیگ کی مثال کافی ہے۔