عمران خان نے برسراقتدار آنے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں کنٹینر پر قوم سے مخاطب ہوئے قوم سے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سے لے کر معاشی خوشحالی سمیت بے حدوحساب وعدے کئے تھے لیکن ساڑھے تین برس اقتدارمیں رہنے کے باوجود وہ وعدے وفا نہ ہوسکے ۔ان کے وعدے کے مطابق ان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ، احتساب اور بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی، بیرونی قرضوں میں کمی، اداروں خصوصا پولیس کی اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبے، وزیر اعظم ہائوس اورصوبوں میں گورنر ہائوسز میں یونیورسٹیز کا قیام، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہونا تھا۔ پاکستان کی عوام کی ایک بڑی تعداد نے عمران خان کومحض اس امید پر ووٹ دیا تھا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے متعدد وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔عمران خان کے یہ تمام وعدے ان کے ساڑھے تین سالہ اقتدار کے دوران تو پورے نہیں ہو سکے البتہ خود وزیر اعظم عمران کے اقتدار کا خاتمہ یقینی ہے۔عمران خان نے قوم سے یہ وعدہ کیاتھاکہ پاکستان ایک ایسا ملک بنے گا جہاں غریب ملکوں سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آیا کریں گے اور پاکستانی سفارت خانوں کے باہر ویزا لینے والوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعدجب ہم پاکستان میں شرحِ بیروزگاری پر نظر ڈالیں تو صورتحال ان وعدوں سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ مشیران سے لیکر حکومتی وزراء نے کئی بارمسلسل کہاکہ ملک میں روزگار فراہم کرنے کیلئے نوکریوں کا وعدہ پورا کیاجا رہا ہے ۔جون2020ء میں عمران خان کے معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم نے 9 لاکھ 70 ہزار افراد کو نوکری کی غرض سے بیرونِ ملک بھیجا ہے۔ انھوں نے اسے پاکستان تحریکِ انصاف کی بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ صرف 18 مہینوں میں تقریباً 10 لاکھ افراد کو بیرونِ ملک نوکری ملی ہے۔اسی طرح 5 اکتوبر2021 ء کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا تھا کہ تین سالوں میں بات ایک کروڑ نوکریوں سے بہت آگے جا چکی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً ساڑھے16 لاکھ لوگ نوکریوں کیلئے باہر گئے ہیں۔بیرون ملک پاکستانیوں کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے ایک بار پھر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کورونا کے باوجود تین سال میں 11 لاکھ لوگوں کو تو صرف بیرون ملک نوکری ملی ہے، اگلے دو سالوں میں پوری امید ہے20 لاکھ لوگ بیرون ملک جائیں گے۔کیا آپ بھی سوچ رہے ہیں کہ تین سال میں 16 لاکھ پاکستانی نوکریوں کے لیے باہر گئے ہیں یا11 لاکھ ۔ مگران دعوئووں کے برعکس حالیہ چند برسوں میں ملک میں آبادی کے ساتھ ساتھ بیروزگار افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے شائع کیے گئے لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں 2017-18 کے دوران بے روزگاری کی شرح 5.8 فیصد تھی جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال 2018-19 میں بڑھ کر 6.9 فیصد پر جا پہنچی۔جبکہ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر شائع انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او سٹیسٹ ڈیٹا بیس) کے مطابق 2017 میں بیروزگاری کی شرح 3.94 سے بڑھ کر 2018 میں 4.08 ، 2019 میں 3.94 اور 2020 میں 4.65 فیصد تک جا پہنچی۔اس طرح یہ بات واضح ہوئی کہ ایک کروڑ نوکریوں کے وعدہ ہی تھا۔ عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا تھاکہ وہ خودکشی کریں گے مگرکسی بھی صورت میںآئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ۔مگربالآخروہ نہ صرف آئی ایم سے قرضے لینے کے لئے گئے بلکہ نہایت کڑی اورعوامی مفاد کے خلاف شرائط پرآئی ایم ایف سے قرضے وصول کئے ۔ عمران خان کا بیانیہ الیکشن سے پہلے جو بھی تھا، حکومت میں آنے کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ اپوزیشن سے کم از کم ایک بنیادی ورکنگ ریلیشن قائم ہوتا، سیاسی درجہ حرارت کم ہو تاکہ ریاستی معاملات چل سکتے۔اس سے حکومت کو اپنے اصل ایجنڈا پر کام کرنے کا بھی موقع ملتا لیکن ان کی توجہ گورننس اور ڈیلیوری سے ہٹ گئی اور غلط ہدف کا پیچھا کیا جاتا رہا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی محاذ تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، قرضے کم کریں گے، مہنگائی کا خاتمہ کریں گے لیکن یہ مشکل دعوے تھے۔ان کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ، مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم میں اضافے تک کئی معاشی چیلنجز شامل تھے جس کے دوران تین بار وزیر خزانہ بھی تبدیل ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کمزور حکومت میں اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں ناکامی، پنجاب میں عثمان بزدار کا بطور وزیر اعلی انتخاب، جہانگیر ترین اور علیم خان کی ناراضگی، کابینہ اور وفاقی وزرا کے اندرونی اختلافات، اپوزیشن سے محاذ آرائی کے نتیجے میں قانون سازی میں مشکلات ان چند سیاسی معاملات میں شامل ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنیں۔ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف میں سب کو علم تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق سب سے اہم ہے لیکن اسی ایک تعلق کو وہ ٹھیک نہیں رکھ سکے۔ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا معاملہ اپوزیشن سے تعلق خراب کرنا تھا اور تیسرا معاملہ پنجاب میں عثمان بزدار کی تعیناتی کا تھا۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کے دور میں گورنر پنجاب رہنے والے چوہدری سرور نے بھی اتوار 3اپریل 2022ء کوحکومت کی جانب سے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلی تعیناتی کو غلط فیصلہ قرار دیا ہے۔