کبھی کبھی میں سوچتا ہوں‘ اور ٹھیک ہی سوچتا ہوں کہ سب کچھ خواب‘ سراب اور حباب ہے۔ شباب‘ سماب اور گلاب بھی تو کچھ ایسا ہی تھا۔ کہیں خون کا ابال تھا تو کہیں آب کا بخار اور کہیں خوشبو کی نمی۔ ظاہر کے پیچھے جو چیز ہے بس وہی ہے۔وہ شے جو ہمارے احاطۂ ادراک میں نہیں آتی‘ موجود ضرور ہے‘ وہ محسوس ہوتی نہیں‘ کروائی جاتی ہے۔ اپنی بے چارگی‘ لاچاری اور نارسائی اداسی کے سوا کچھ نہیں۔ ان ہونی کے ہونے کا یقین مجھ کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ ہوا سے بھی ہلکی دستک کہیں محسوس ہوتی ہے۔ کہاں ساغر یاد آیا: میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں یقینا میری طرح آپ بھی روحانیت پر یقین کرتے ہونگے کہ اس کے بغیر تو جسم بے معنی ہے چکنی مٹی کی طرح جس پر کچھ نہیں ٹھہرتا۔ روح عجیب شے ہے‘ اگر آپ جسم پر محنت کریں تو یہ کمزور ہوتی جاتی ہے اور اس کے برعکس بھی ایسا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ان میں اعتدال رکھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔ جو بھی ہے بغیر کثافت کے لبادے کے لطافت کہیں تحلیل ہو جائے گی۔ میں کہیں سے کہیں نکل جائوں گا۔ اصل میں مجھے ایک دلچسپ تجربے اور مشاہدے کا ذکر کرنا تھا جو میرا تو ہرگز نہیں مگر ایسے برگزیدہ شخص کا ہے کہ جس سے غلط بیانی کا گمان ممکن نہیں انہوں نے یوں بیان کیا کہ میں نے یوں جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اسی بہانے میں نے سوچا کہ ایک اللہ والے یعنی ولی کو یاد کر لیا جائے جس سے لاکھوں لوگوں کو فیض پہنچا اور جسے کراچی کے دہشت گردوں نے شہید کر دیا اور اس اللہ کے دوست نے اس جماعت کے لیے بددعا تو نہیں کی ہو گی مگر وہ جماعت برباد ہو کر رہی۔ انہی لوگوں نے تکبر کے ایڈیٹر صلاح الدین صاحب جیسے عظیم آدمی کو بھی شہید کیا۔ یہ ایسے لوگ تھے جن کے جنازوں پر صفائی کرنے والے عیسائی بھی روتے تھے کہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ انہو ں نے کس کس کا چولہا جلا رکھا تھا اور کس کس کا وہ آسرا بنے ہوئے تھے۔ صلاح الدین صاحب کے ساتھ ایک مرتبہ میں نے بھی ایک افطاری کی تھی وہ میرے ماموں جان ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی سے ملنے آئے تھے۔ مجیب الرحمن شامی بھی موجود تھے ایسے بہادر اور اللہ والے اب شاید ناپید ہیں یا کم یاب ہیں بات میں کرنا چاہتا تھا حکیم محمد سعید کی کہ جو ہمدرد کے بانی تھے اور جو ہمدردی کا دوسرا نام تھے۔ انہوں نے اپنے ادارے کا نام بہت سوچ سمجھ کر رکھا ہو گا پھر بے ساختہ کہ ہمدرد‘ ہم اور درد سے مل کر بنا ہے۔ درد میں سانجھ انہی کا کام ہے جنہیں اللہ کے بندوں سے محبت ہے اللہ تک پہنچنے کا راستہ اس کے بندے ہی تو ہیں اور بندہ وہ ہے جو بندگی جانتا ہے اور وہی اللہ کو پہچانتا ہے بندگی ہی بندے کی معراج ہے اور خدا تک رسائی کا ذریعہ۔ اب آتا ہوں میں اس واقعہ کی طرف جس نے مجھے روح تک سرشار کر دیا۔ یہ واقعہ بیان کیا وادی سون سیکسر کے گائوں انگہ میں پیدا ہونے والے جناب رشید احمد انگوی نے۔ وہ زوالوجی کے استاد رہے مگر وہ برس ہا برس سے درس دیتے ہیں۔ بہت بڑے علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ایک روز وہ درس کے دوران بتانے لگے کہ روحانیت کیا ہوتی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ انہیں بے خوابی کا مرض ہو گیا نیند نہیں آتی تھی۔ بڑے بڑے معالجوں سے علاج کروایا آفاقہ نہیں ہوا۔ دوستوں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ حکیم سعید صاحب سے مشورہ لے لیا جائے۔ کہنے لگے میں کراچی پہنچا پتہ چلا کہ وہ تو تہجد کے بعد دیکھنا شروع کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ جب وہ اس وقت ان کے ہاں پہنچے تو دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ وہاں تو لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے وہیں اپنا ٹوکن لے کر قریبی مسجد میں نماز پڑھی اور اندازے سے واپس وہاں آیا۔ جب ان کی باری آئی اور وہ حکیم محمد سعید کے سامنے آن بیٹھے کہتے ہیں کہ حکیم سعید صاحب نے میری نبض چیک کرنے کے لیے جب میری کلائی پر ہاتھ رکھا تو با خدا اس لمس سے ان کا آدھا مرض جاتا رہا۔ یہ ایک عجیب و غریب احساس تھا جسے وہ اندر تک محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے دو شیشیاں دوائی استعمال کے لیے دیں اور حیران کن تھا کہ سچ یہ کہ وہ بالکل ٹھیک ہو گئے اور پھر انہوں نے خوب نیندیں پوری کیں۔ کہنے لگے کہ وہ کئی برسوں سے ڈاکٹروں کے پاس دھکے کھا رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعتاً ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں اللہ نے شفا رکھی ہوتی ہے۔ وہ مٹی بھی دیں تو خاک شفا بن جاتی ہے۔ اصل میں دوائی تو ایک سبب ہے اور یہ سنت ہے وگرنہ ’’ہوالشافی ‘‘ ہی ہے کہ شفا اس کی طرف سے ہے۔ ہمارے ہاں جو پہلے حکیم ہوا کرتے تھے اکثر تہجد گزار اور اللہ والے ہوتے تھے۔ سب اپنے نسخے میںہوالشافی لکھا کرتے تھے۔ وہ حکیم حکمت والے تھے۔ آج کل کے حکیم تو یونہی تک بندی کرتے ہیں۔ وہ عظیم سلسلہ تو تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ آج کل کے حکیم کا ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے۔ آپ کی ظرافت طبع کے لیے حاضر ہے کہ کسی نے ایک جگہ لکھا دیکھا‘ تجربہ 300سال’’دیکھنے والے نے سوچا کہ یہ تو سراسر جھوٹ ہے تین سوسالہ تجربہ کہاں سے آ گیا؟ وہ شخص متجسس ہوا تو حکیم کی دکان کی طرف لپکا‘ دیکھا تو وہاں ایک شخص ہاون دستے میں دوائی کوٹ رہا تھا۔ اس شخص نے اس کا تعارف چاہا تو پتہ چلا کہ وہ متعلقہ حکیم کا شاگرد ہے۔ پوچھا کہ بھائی جان یہ 300سالہ تجربہ والی بات تو جھوٹ ہی لگتی ہے۔ دوائی کوٹنے والا شخص بولا’’جناب! مجھے نہیں معلوم‘ مجھے تو یہاں صرف ڈیڑھ سو سال یعنی 150سال ہوئے ہیں۔ پوچھنے والے کی سٹی گم ہو گئی۔ دوسری بات یہ کہ آج کے حکیم لالچی بھی ہیں‘ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا مریض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان سے وابستہ ہو جائے اور وہ کہے کہ وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ خیر یہ باتیں تو یونہی تفنن طبع کے تحت لکھ دیں۔ اصل میں میرا مقصد تو اس عظیم شخص یعنی حکیم محمد سعید صاحب کا ذکر کرنا تھا جو آج بھی لاکھوں لوگوں کے دلوںمیں زندہ ہیں۔کیا کروں شاعر ہوں۔ پروین شاکر کا معروف شعر: اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی آپ اسے کچھ بھی کہیں روحانی تاثیر کا وجود ضرور ہے۔ اصل بات یہ کہ اثر قبول کرنے والا بھی تو مٹی میں نم رکھتا ہوں۔ مٹی بھی اس کی نم ہوتی ہے جس کی آنکھوں میں پانی ہوتا ہے۔ اس پر صحبت صالح اثر انداز ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں طلب اور پھر اس میں شدت ضروری ہے۔ یہ بھی مگر توفیق کی بات ہے۔ پھر نظر سے بھی کایا پلٹ جاتی ہے۔ محسن نقوی مرحوم کا ایک شعر یاد آ گیا: لے گیا محسن وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں اسکے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا میں نے یہ شعر اس تناظر میں لکھا ہے کہ پہلے تو دھرتی کا پیاسا ہونا ضروری ہے۔ تب ہی بادل ادھر آتے ہیں اور اسے سیراب کرتے ہیں۔ چلیے آخر میں ایک شعر کے ساتھ اجازت: دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے