گزشتہ آٹھ ماہ میں جو سیاسی دھماکہ چوکڑی مچی اس نے ملک کی اخلاقی،معاشی اورسماجی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ معیشت لرز رہی ہے۔ ڈالر کی اڑان معاشی گرو اسحاق ڈار کے قابو میں بھی نہیں ۔بجلی کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے اطلاع دی ہے کہ سرما کی ٹھٹرتی راتوں کو گیس دستیاب نہ ہوگی۔ خبریں ہیں کہ ہجوم درہجوم آتی ہیں لیکن سب کی سب بری۔افسوس ہے گلشن کو خزاں لوٹ رہی ہے۔ معاشی مسائل اور سیاسی بحرانوں سے کون سا ملک ہے جو دوچارنہ ہواہو۔مگر یہ لیڈرشپ ہی ہوتی ہے،جو بھنور میں پھنسی اور انتشار کا شکار قوم کو نکال باہر لاتی ہے۔بشرطیکہ وہ ملک اور قوم سے مخلص ہو۔وقت مٹھی سے ریت کی ماند پھسل رہاہے۔ لیکن ماضی کی تلخیوں اور کشیدگی کو دفن کرکے نئے عزم کے ساتھ کوئی بھی بنیاد سحر رکھنے کو رضامند نہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں نے پیشکش کی کہ وہ حکمران اتحاد کے ساتھ اگلے الیکشن کے حوالے سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اس بیان کا خیر مقدم کرنے کے بجائے ان پر اتنی تنقید ہوئی کہ لگ بھگ انہیں اپنے بیان سے رجوع کرنا پڑا۔ اور پرنالہ وہاں کا وہاں ہی بہہ رہاہے۔ایک او رموقع محض گروہی انا کی تسکین کی خاطر ضائع کردیا گیا۔ حکمران اتحاد کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ ملک کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر پائے ہیں اور نہ ہی چند ماہ مزید اقتدار سے چمٹے رہنے سے انہیں یا ملک کو کچھ حاصل ہوگا۔بطور حکمران یہ پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ عمران خاں کے ساتھ بات چیت کی راہ نکالیں نہ کہ مذاکرات کے موقع کو ضائع کریں۔حکمران اتحاد کو یاد رکھنا چاہیے کہ بے یقینی کی موجودہ فضا میں کوئی بھی ملک پاکستان کے ساتھ کاروباری روابط استوار کرے گا نہ قابل ذکر سفارتی پیش قدمی نہیں کرے گا۔لہٰذا عمران خاں کو شرمندہ کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے تاکہ بتدریج الیکشن کی طرف قدم بڑھائے جاسکیں۔ پاکستانیوں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں، ان میں مزید تکلیفیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں ۔افسوس!صدیوں سے افلاس کی چکی میں پھنسی اس قوم کا مقدر بدلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔گزشتہ نصف صدی میں دنیا بھر کی قومیں ترقی کرگئی ہیں۔بھارت کا ذکر ہی کیا!بنگلادیش کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اگلے ایک ڈیڑھ عشرے میں اس کی معیشت کا حجم ایک کھرب ڈالر ہوگا۔اس کے برعکس ہمارے ہاں دن پھرے ہیں فقط حکمران طبقات کے ۔ہر سال شائع ہونے والے عالمی انڈکس کو اٹھا کر دیکھیں تو دکھ کی ایک لہر تن بدن میں دوڑ جاتی ہیں۔ کہا جاتاہے کہ دنیا کا سب سے آلودہ ترین شہر لاہور ہے۔ حالانکہ کسی زمانے میںیہ باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔عالمی جائزے بتاتے ہیں کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتاہے،جہاں سب سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ان کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔غالب نے ایسی ہی کسی کیفیت پر کہاہوگا حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدرو ہو توساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں اس ملک کی بدنصیبی کہ اسے لیڈرشپ جس پر کلام نرم ونازک بے اثر ہے۔ پٹرول دو سو کا ہو یا پانچ سو کا ان کی گاڑی رکھتی نہیں۔ ڈالر ڈھائی سو کی حد عبور کرجائے یا چھ سو کی ان کا لائف اسٹائل متاثر نہیں ہوتا۔ من وسلوی ان پر اترتاہے۔ھذا من فضل ربی وہ ورد کرتے ہیں۔ اربوں اور کھربوں کے بینک بیلنس ہیں ان کے ۔ اسمبلیوں اور سینیٹ میں اکثر کی دوسری تیسری نسل براجماں ہے۔ سرکاری دفاتر اور عدلیہ میں بھی دوست، رشتے دار اور جان پہنچان والوں کی بھرمار ہے۔ کام کوئی رکتاہے نہ جوابدہی کی فکرکھائے جاتی ہے۔ لہٰذا بہارہو کہ خزاں حکمران طبقہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کے وارے نیارے ہیں۔ خاکم بدھن پاکستان اگر دیولیہ بھی ہوجائے تو بھی ان کے کروفر میں بال برابر فرق نہیں پڑے گا۔ چنانچہ ملک میں جاری بحران کو ختم کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ پاک فوج جس پر پوری قوم فخر کرتی ہے کی لیڈرشپ میں چند ایک افراد گزشتہ چند ماہ سے بری طرح تنقید کی زد میں رہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائر منٹ کے باوجود ان کے سیاسی کردار پر بحث ومباحثہ تمام نہ ہوسکا۔ اگلے چندماہ تک موجودہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا۔البتہ جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں فوج کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنی روایتی امیج بحال کرے۔ بطور ادارہ ان محرکات پر غور کیا جائے جورائے عامہ کے فعال طبقات کے ذہنوں میں عسکری اداروںکے کردار کے بارے تحفظات کا سبب بنتے ہیں۔ کل تلک جو معاملات سات پردوں کے پیچھے چھپ چھپا کر کیے جاتے تھے آج سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ کاروبار سیاست کے لیے مجید لاہوری نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکمران اتحاد، ادارے اور اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مخلصانہ کوششیں کریں۔چنانچہ ایک ہی وقت میں ملک میں الیکشن کرانے کے لیے مکالمے کی ضرورت ہے۔دوصوبوں میں الیکشن ہونے سے ایک نیا پنڈورہ باکس کھل جائے گا ۔ بھارت کی طرح پورے پانچ سال کبھی گلگت بلتستان میں، کبھی آزادکشمیر اور کبھی پنجاب اور خیبرپختون خوا میں الیکشن ہوگا۔لہٰذا اس صورت حال سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ مولانا مودوی نے کہا تھا کہ غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔انڈے بچے دیتی ہے۔ غلطیوں سے سیکھا نہ جائے تو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میںبہت سی غلطیاں ہوئیں۔ باوجود اس کے لیڈرشپ کو ماضی کا قیدی نہیں بن جانا چاہیے ۔ ان کے کندھوں پر پاکستان کو موجودہ بحران سے ہمیشہ کے لیے نکالنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کا ایسا میکانزم مرتب کریں جس پر سب کو اعتماد ہو۔جہاں ووٹ چوری کا کوئی امکان نہ ہو۔الیکشن کمیشن کی موجودہ ہیت پر جو اعتراضات ہیں انہیں رفع کیا جائے۔ ایک غیر جانبدار اور موثر الیکشن کمیشن ہی پاکستان کو موجودہ سیاسی بحران سے نکال سکتاہے۔ سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جہاں عسکری اداروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا پڑے یا اس کا موقع فراہم ہو۔ بتدریج سیاست، کاروبار اور میڈیا کی چمک دمک سے انہیں دور کیا جائے تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے نبردآزما ہوسکیں۔علاوہ ازیں سیاسی مقدمات کو روز روز عدالتوں میں لے جانا بھی ایک معیوب فعل ہے۔ عدالتوں کو سیاست سے حتیٰ الامکان دور رکھا جائے تاکہ وہ ملک بھر میں زیرالتوا بیس لاکھ سے زائد مقدمات پر عدالتیں توجہ مرکوز کرسکیں۔